افتخار شاہد ۔۔۔ محبت کا یہ کیسا سلسلہ ہے

محبت کا یہ کیسا سلسلہ ہے
زمیں تک آسماں پھیلا ہوا ہے

تمہاری دھڑکنوں کو کیا ہوا ہے
ہمارا تو یہ پہلا تجربہ ہے

ہمارے نقش تو بگڑے نہیں ہیں
تمہارا آئنہ ٹوٹا ہوا ہے

مری شاخیں ہری ہونے لگی ہیں
کسی جنگل نے مجھ کو آ لیا ہے

ازل سے منزلوں کی جستجو میں
ازل سے آدمی بھٹکا ہوا ہے

ہوائے شام کا جرار لشکر
چراغ شام سے الجھا ہوا ہے

کوئی مے خوار گزرا ہے یہاں سے
جبھی تو راستہ بہکا ہوا ہے

عجب سا خواب میں دیکھا ہے منظر
کہیں چھتری، کہیں خیمہ لگا ہے

ترے رخسار پہ رکھا تھا شاہد
ہمارا ہاتھ جو مہکا ہوا ہے

Related posts

Leave a Comment