اصغر علی بلوچ ۔۔۔ ایک بے وجہ اداسی لیے خوش رہتا ہوں

ایک بے وجہ اداسی لیے خوش رہتا ہوں
میں ترے ساتھ خموشی لیے خوش رہتا ہوں

رات اور دن کے تعاقب میں بسر ہوتی ہے
میں عبث خواہشِ باقی لیے خوش رہتا ہوں

یوں بھی ہوتا ہے کہ میں روتے میں ہنس دیتا ہوں
اور اک صدمہ اضافی لیے خوش رہتا ہوں

میں تغیر کو بھی تقدیر سمجھتا ہوں اے دوست
سو ترے ہجر کی تختی لیے خوش رہتا ہوں

سر پہ میں دار سجاتا ہوں کہ سردار ہوں میں
پاؤں میں جبر کی رسی لیے خوش رہتا ہوں

کرب سے دیکھتی رہتی ہیں وہ بوڑھی آنکھیں
اور میں عالمِ طفلی لیے خوش رہتا ہوں

اور کیا رہ گیا خوش رہنے کو باقی اصغر
میں فقط شعر کی مستی لیے خوش رہتا ہوں

Related posts

Leave a Comment