اصغر علی بلوچ ۔۔۔ مری دسترس میں جو پھول تھے وہ جھلس گئے

مری دسترس میں جو پھول تھے وہ جھلس گئے مرے بام و در تری خوشبوؤں کو ترس گئے مرے خواب زار اجاڑ کے ، مجھے مار کے کہاں خاک اوڑھ کے سو رہے ، کہاں بس گئے وہ جو سبز رت کے سحاب تھے جو گلاب تھے مرے دل کی دھرتی پہ آگ بن کے برس گئے وہ ترے فقیر کی جھونپڑی ہے یہیں کہیں وہ بلند بام عمارتیں ، وہ کلس گئے ترے بعد کوچہِ دلبراں کا یہ حال ہے سرِ رہگزارِ سلوک اہلِ ہوس گئے میں عجیب حالتِ…

Read More

اصغر علی بلوچ ۔۔۔ ایک بے وجہ اداسی لیے خوش رہتا ہوں

ایک بے وجہ اداسی لیے خوش رہتا ہوں میں ترے ساتھ خموشی لیے خوش رہتا ہوں رات اور دن کے تعاقب میں بسر ہوتی ہے میں عبث خواہشِ باقی لیے خوش رہتا ہوں یوں بھی ہوتا ہے کہ میں روتے میں ہنس دیتا ہوں اور اک صدمہ اضافی لیے خوش رہتا ہوں میں تغیر کو بھی تقدیر سمجھتا ہوں اے دوست سو ترے ہجر کی تختی لیے خوش رہتا ہوں سر پہ میں دار سجاتا ہوں کہ سردار ہوں میں پاؤں میں جبر کی رسی لیے خوش رہتا ہوں کرب…

Read More

اصغر علی بلوچ ۔۔۔ ہمارے بارے میں پوچھتے ہو ہمارے بارے میں پوچھنا کیا

Read More