لہلہاتے کھیت خوشوں سے بھرے بارشوں سے لوگ خدشوں سے بھرے جھنگ کے بیلے ہیں رانجھوں سے تہی اور دریا ان کی لاشوں سے بھرے سیر چشمی دید بِن ممکن نہیں پیٹ کب روٹی کی باتوں سے بھرے روح اپنی دفتروں میں قید ہے سانس اپنے سرخ گرہوں سے بھرے علم و حکمت سے ہیں خالی حافظے شیلف ہیں گرچہ کتابوں سے بھرے منہدم آثار بھی آباد ہیں خالی پنجر بھی ہیں سانسوں سے بھرے
Read MoreTag: asghar ali baloch
اصغر علی بلوچ ۔۔۔ مری دسترس میں جو پھول تھے وہ جھلس گئے
مری دسترس میں جو پھول تھے وہ جھلس گئے مرے بام و در تری خوشبوؤں کو ترس گئے مرے خواب زار اجاڑ کے ، مجھے مار کے کہاں خاک اوڑھ کے سو رہے ، کہاں بس گئے وہ جو سبز رت کے سحاب تھے جو گلاب تھے مرے دل کی دھرتی پہ آگ بن کے برس گئے وہ ترے فقیر کی جھونپڑی ہے یہیں کہیں وہ بلند بام عمارتیں ، وہ کلس گئے ترے بعد کوچہِ دلبراں کا یہ حال ہے سرِ رہگزارِ سلوک اہلِ ہوس گئے میں عجیب حالتِ…
Read Moreاصغر علی بلوچ ۔۔۔ ایک بے وجہ اداسی لیے خوش رہتا ہوں
ایک بے وجہ اداسی لیے خوش رہتا ہوں میں ترے ساتھ خموشی لیے خوش رہتا ہوں رات اور دن کے تعاقب میں بسر ہوتی ہے میں عبث خواہشِ باقی لیے خوش رہتا ہوں یوں بھی ہوتا ہے کہ میں روتے میں ہنس دیتا ہوں اور اک صدمہ اضافی لیے خوش رہتا ہوں میں تغیر کو بھی تقدیر سمجھتا ہوں اے دوست سو ترے ہجر کی تختی لیے خوش رہتا ہوں سر پہ میں دار سجاتا ہوں کہ سردار ہوں میں پاؤں میں جبر کی رسی لیے خوش رہتا ہوں کرب…
Read More