امجد اسلام امجد ۔۔۔ عشق ایسا عجیب دریا ہے

عشق ایسا عجیب دریا ہے
جو بنا ساحلوں کے بہتا ہے

مغتنم ہیں یہ چار لمحے بھی
پھر نہ ہم ہیں نہ یہ تماشا ہے

اے سرابوں میں گھومنے والے!

دل کے اندر بھی ایک رستہ ہے

زندگی اک دکاں کھلونوں کی

وقت بگڑا ہوا سا بچہ ہے

اس بھری کائنات کے ہوتے

آدمی کس قدر اکیلا ہے

آئنے میں جو عکس ہے امجد

کیوں کسی دوسرے کا لگتا ہے

Related posts

Leave a Comment