آفتاب محمود شمس ۔۔۔ نگاہِ شوق کے اب وہ سفر نہیں ہوتے

نگاہِ شوق کے اب وہ سفر نہیں ہوتے
گلی ہے ایک، مگر باخبر نہیں ہوتے

لپٹ ہی جائیں جہاں قمقموں سے شاخیں سب
وہاں شجر پہ پرندوں کے گھر نہیں ہوتے

نہیں ہے گھر سے وہ نسبت کہ غم ملے ہم کو
خوشی کی بات ہے ، ہم دربدر نہیں ہوتے

مرے ہی گائوں میں ہے صرف قید عورت ، یا
ترے بھی دیس میں پریوں کے پر نہیں ہوتے

یہاں تو لوگ بدلتے ہیں صورتیں ایسی
چلیں گے ساتھ، مگر ہم سفر نہیں ہوتے

Related posts

Leave a Comment