بانی ۔۔۔ ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا

ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا
میں سنّاٹے کا پیکر منتظر تیری صدا کا تھا

وہی اک موسمِ سفّاک تھا، اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی، عجب فتنہ ہوا کا تھا

ہم اپنی چُپ کو افسوں خانۂ معنی سمجھتے تھے
کہاں دل کو خبر تھی، امتحاں حرف و صدا کا تھا

غلط تھی راہ لیکن کس کو دم لینے کی فرصت تھی
قدم جس سمت اٹھّے تھے، ادھر ہی رخ ہوا کا تھا

ہمارے دوست بننے کو ضرورت حادثے کی تھی
عجب اک مرحلہ سا درمیاں میں ابتدا کا تھا

ہم اپنے ذہن میں کیا کیا تعلّق ا س سے رکھتے تھے
وہاں سارا کرشمہ ایک بے معنی ادا کا تھا

مسافر تنہا تنہا لوٹ آئے راہ سے آخر
سمجھتے تھے جسے رہبر، وہ اک جھونکا   ہوا کا تھا

وہاں ٹھنڈی سماعت تھی سمندر کی طرح بانی
یہاں الفاظ پر سایہ کسی بنجر صدا کا تھا

Related posts

Leave a Comment