ازور شیرازی ۔۔۔ جو کچھ بھی اندرون ہے باہر رقم نہیں

جو کچھ بھی اندرون ہے باہر رقم نہیں
میرا بدن نمائشِ دنیا سے کم نہیں
کہتا کوٸی نہ میر کی وحشت کو لاعلاج
افسوس ہے کہ چاند کا نقشِ قدم نہیں
رہتے ہیں ہر مکان میں گوشہ نشین شخص
میری گلی میں رونقِ دیر و حرم نہیں
تاعمر ایک تجربہ ناکام ہی رہا
سب کو دکھا سکوں کہ مجھے کوٸی غم نہیں
اکثر غمِ حیات میں آیا مجھے خیال
جب تک ہمارا سانس ہے تب تک عدم نہیں
منظر ہر ایک پہلے سے دیکھا ہوا لگے
شاید مرا جہان میں پہلا جنم نہیں
چلنا ہے میرے ساتھ تو کچھ سوچ کر چلو !
میں ایسا راستہ ہوں کہ جو مختتم نہیں
کیسے نہ ہو نفوس کو صحرا کا احتمال
دریا کی خشک ریت میں پانی کا نم نہیں
شامل ہے خاندان کے شعلہ گروں کا نام
اپنے مکاں پہ صرف ہوا کا کرم نہیں

Related posts

Leave a Comment