جلیل عالی ۔۔۔ تُو صید کر سکے مری سوچیں نہیں نہیں

تُو صید کر سکے مری سوچیں نہیں نہیں
ہمسر مرے گماں کا بھی تیرا یقیں نہیں

اک خبط چُھوٹنے سے خوشی بھی ہوا ہوئی
اک ربط ٹوٹنے پہ مرا دل غمیں نہیں

گزری تمام عمر اسی گرم و سرد میں
اوپر فلک نہیں کبھی نیچے زمیں نہیں

چلتا ہے حکم اور کسی کا پسِ نگاہ
تاجِ شہی میں شانِ شہی کا نگیں نہیں

اک خوابِ شہرِ شوق کا دشمن ہے اصل کون
کہہ دے گا کان میں وہ لکھے گا کہیں نہیں

دیکھی نہیں ہے جس نے مری پاک سر زمیں
وہ آشنائے عکسِ بہشتِ بریں نہیں

رہتے ہیں اک سرورِ تعلق میں رات دن
یہ کیفِ جاں رہینِ مئے و انگبیں نہیں

دھرتی پہ ایسے آتش و آہن کا راج ہے
جیسے وہ ہر کہیں ہے مگر اک یہیں نہیں

Related posts

Leave a Comment