حمزہ یعقوب

کون سی شے نہیں پگھلے گی تپش سے میری
روشنی راہ بدلتی ہے، کشش سے میری

آئنہ عکس نہیں دیکھ سکے گا اپنا
تو بتا، کیا نظر آتا ہے روش سے میری

مٹ گئے سب کے لیے معنی و حسن و امید
مختلف کچھ بھی نہیں تیری خلش سے میری

چھوڑنا پڑ گیا اک روز مرا دل اس کو
کم نکل آئی کشش، ردِکشش سے میری

نفع تو خیر مجھے پہلے بھی کیا چاہیے تھا
پر جو نقصان ہوا داد و دہش سے میری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ سادہ لوح نہ ہشیار کے مزے لگے ہیں
سفر میں قافلہ سالار کے مزے لگے ہیں

زیادہ تر یہاں بندوق کام آتی ہے
کبھی کبھی کسی تلوار کے مزے لگے ہیں

وہ حال میں نہیں، ماضی میں زندہ رہتا ہے
مرے نہیں، مرے آثار کے مزے لگے ہیں

ہمیں شروع سے دنیا نے حاشیے پہ رکھا
یہاں بھی مرکزی کردار کے مزے لگے ہیں

یہ وصف پہلے پرندوں کو سونپا جاتا تھا
اب آدمی کو بھی اظہار کے مزے لگے ہیں

مسافروں کے لیے اور کوئی چھاؤں نہیں
درخت کٹ گیا، دیوار کے مزے لگے ہیں

وہ پہلی مرتبہ خیمے میں تھوڑی آئی ہے
ہمیشہ کی طرح سردار کے مزے لگے ہیں

جہان علت و معلول کے سوا کیا ہے
میں روشنی ہوں تو رفتار کے مزے لگے ہیں

زیادہ مانگنے جاتے تو کچھ نہیں ملتا
یہی بہت ہے کہ دو چار کے مزے لگے ہیں

کہیں سے پھول کہیں سے دعائیں آتی ہیں
مرض کے نام پہ بیمار کے مزے لگے ہیں

Related posts

Leave a Comment