محمد امجد حسین

اک اسی کا سوال تھے ہم بھی
کس قدر با کمال تھے ہم بھی

ہم اسیرانِ غم کے چہرے پڑھ
غم کی زندہ مثال تھے ہم بھی

سانس لینا بھی مسئلہ تھا ہمیں
وہ بھی غم سے نڈھال تھے‘ ہم بھی

ایک دشمن کی موت پر صاحب
جانے کیوں پُر ملال تھے ہم بھی

وہ بھی تھے بوجھ سر کا اے امجد
اور جاں کا وبال تھے ہم بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب کا سلسلہ نہیں معلوم
درد کا راستہ نہیں معلوم

غمِ دوراں ہو یا غمِ جاناں
مجھ کو اپنا پتہ نہیں معلوم

درمیانِ چراغ و موجِ ہوا
جو بھی ہے مسئلہ نہیں معلوم

میرے دل نے جدائی کا صدمہ
کس طرح سے سہا نہیں معلوم

الجھنوں سے نکل سکوں کیسے
جب کوئی راستہ نہیں معلوم

حال دل کا بیان کیسے کروں
درد کا حاشیہ نہیں معلوم

دل سے دل تک حسین امجد کو
کتنا ہے فاصلہ نہیں معلوم

Related posts

Leave a Comment