شاہد ماکلی ۔۔۔ ایک دریا کنارے، جدھر سب کھڑے ہیں، اُدھر عکس ہے

ایک دریا کنارے، جدھر سب کھڑے ہیں، اُدھر عکس ہے
میرے پیشِ نظر تم ہو ، دُنیا کے پیشِ نظر عکس ہے

جس میں تم ہو، وہ عالَم جہاں ساز ہے، کچھ بتاؤ ہمیں
جس میں ہم ہیں، وہ دُنیا حقیقی ہے، یا عکس در عکس ہے

دائیں بائیں کئی آئنے ہیں، عقَب میں کئی قْمقمے
سائے کا ہم قدم سایہ ہے، عکس کا ہم سفر عکس ہے

عکس معکوس ہو کر بھی لگتے نہیں ہیں کہ معکوس ہیں
جھیل کا چاند لگتا نہیں جو حقیقت کے بر عکس ہے

لوگ دھوکے سے آ تو گئے ہیں تمھاری فُسوں گاہ میں
اب سمجھ ہی نہیں پا رہے، تم کدھر ہو، کدھر عکس ہے

خوش نہ ہو یہ سمجھ کر کہ یادیں مٹانے سے مٹ جائیں گی
لوحِ محفوظ کے آئنے میں دو عالم کا ہر عکس ہے

بحر و بر میں، چمکتی ہَوا میں، کہاں بالا دستی نہیں
موج پر موج ہے، نقش پر نقش ہے، عکس پر عکس ہے

کیوں مجازی ہمیں لگ رہا ہے، یہ پرتَو ہے اصلی اگر
کیوں حقیقی تمھیں لگ رہا ہے، یہ پیکر اگر عکس ہے

اشکِ لرزاں کے اندر تہ و بالا ہے منظروں کی شبیہ
مرتعش آبجْو میں نظاروں کا زیر و زبر عکس ہے

ساحلوں پر پہنچنے میں شاہد کئی دن لگیں گے ابھی
کشتیوں کا سفر پانیوں کے بہاؤ کے بر عکس ہے

Related posts

Leave a Comment