شہاب اللہ شہاب ۔۔۔ نام سن کر آنکھ میں اک رنگ بھرجاتا شہاب

نام سن کر آنکھ میں اک رنگ بھرجاتا شہاب
پانیوں پر عکس سا پھر تیر جاتا تھا شہاب

اس کے ہونٹوں پر تبسم میرے شعلوں کی طرح
جس نے مجھ کو آسماں سے ٹوٹتے دیکھا شہاب

چونک جاتا تھا میں اکثر دیکھ کر اس شخص کو
نام تیرا سن کے گہرا سانس جو لیتا شہاب

وہ ملا جب راستے میں اجنبی بن کر ملا
کاش! میری روح کو پہچانتا میرا شہاب

بات کرتے کرتے اس کے لفظ بھی رونے لگے
آنسوؤں میں بھیگتا دیکھا گیا لہجہ شہاب

تھی شراب چشم ہی مہنگی جہاں عاشق گئے
خون دل بازار میں بکتا رہا سستا شہاب

ہم رہے پیاسے ، ہماری سوچ بھی پیاسی رہی
ہم جہاں رہتے تھے بہتا تھا وہاں دریا شہاب

اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور سمجھانے لگا
میں نے دیکھا تو تھا وہ رستہ ترے گھر کا شہاب

Related posts

Leave a Comment