مظفر حنفی ۔۔۔ ہم کہ مُجرم دو ملاقاتوں کے ہیں

ہم کہ مُجرم دو ملاقاتوں کے ہیں
گھاؤ دل پر سیکڑوں باتوں کے ہیں

پھُول، پتّے ، پھل، سبھی مٹّی ہوئے
پیڑ پر احسان برساتوں کے ہیں

کہکشاں پر ثبت ہیں میرے قدم
چاند پر دھبّے مِرے ہاتھوں کے ہیں

وہ مسافر آندھیوں سے خوف کھائیں
جن پہ سائے مہرباں چھاتوں کے ہیں

سال بھر کی گرد آئینے پہ ہے
سامنے انبار سوغاتوں کے ہیں

چودھویں کے چاند کی مانند ہم
اور مہماں ایک دو راتوں کے ہیں

دل دُکھاتے ہیں مظفرؔ شعر سے
مستحق ہم لوگ صلواتوں کے ہیں

Related posts

Leave a Comment