نسیمِ سحر ۔۔۔ کچھ کام نہ آئے گی اب عکس گری اپنی

کچھ کام نہ آئے گی اب عکس گری اپنی
توڑے گی سب آئینے آشفتہ سری اپنی

پت جھڑ کے تسلّط کو تسلیم نہیں کرتے
شاخوں پہ سجا کر بھی ہم بے ثمری اپنی

گھر جانے کی خواہش میں یہ خوف بھی لاحق ہے
لے جائے کہاں جانے پھر در بدری اپنی

آئینہ مقابل ہو اور دیکھ لیں ہم تُجھ کو
حائل ہے ابھی اِس میں کچھ کم نظری اپنی

اس واسطے کرتے ہیں ہم عام ہُنر اپنے
کھُل جائے نہ دُنیا پر ہر بے ہُنری اپنی

آیا ہے وہی پہلے پت جھڑ کی نگاہوں میں
جس پیڑ نے رکھی تھی ہر شاخ ہری اپنی

حالات نے ہم کو بھی پابستہ کیا آخر
وُہ عزمِ سفر اپنا ، یہ بے سفری اپنی!

تصویر تو ہونا تھی پھر ہوش رُبا ایسی !
کچھ نقش قیامت کے، کچھ نقش گری اپنی

دریا تو نسیمؔ اُس کی دہلیز تک آیا تھا
پگلی نے مگر پھر بھی گاگر نہ بھری اپنی

Related posts

Leave a Comment