نسیمِ سحر ۔۔۔ نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم

نعتؐ ہے کیسا معجزہ اسمِ نبیؐ کا! کہ گھر روشن ہؤا ہے مدحتی کا درِ آقاؐ پہ میری حاضری کا عجب لمحہ تھا وہ خوش قسمتی کا ہوئی مجھ پر خُدا کی مہربانی کہ اُس نے کر دیا مجھ کو نبیؐ کا مدینے کی طرف جانا ہے مُجھ کو ’’تعاقب کر رہا ہوں روشنی کا‘‘ تسلسل اب بھی ہے کون و مکاں میں وہی غارِ حرا کی روشنی کا مِرے آقاؐ، بہت بھٹکا ہؤا ہوں مگر مَیں ہوں سدا سے آپؐ ہی کا ! بڑا ویران ہوتا جا رہا ہوں…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ نسیمِ سحر

رحم ہم پر ہو اب اَے شہِ دَوسراؐ ساری دُنیا ہے درپَے شہِ دَوسراؐ ہو مجھے بھی عطا ، اَے شہِ دَوسراؐ نعت کا لحن اور لَے، شہِ دَوسراؐ صرف دو لفظ اس استغاثے کے ہیں طرزِ غالبؔ میں ’ہَے ہَے‘، شہِ دَوسراؐ بس اُسی راستے پر رہوں گامزن جو ہے میرے لیے طَے، شہِ دَوسراؐ آپ کی اک نگاہ ِکرم کے عوض لوں نہ ہر گز کوئی شے ، شہِ دوسراؐ اس خماری میں بھی ہوشمندی رہے معرفت کی مِلے مَے، شہِ دوسراؐ آپؐ کے در پہ آؤں گا…

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ عشق میں جتنا مرا نقصان ہونا تھا، ہؤا

عشق میں جتنا مرا نقصان ہونا تھا، ہؤا مجھ کوآخر بے سر و سامان ہونا تھا، ہؤا میں یہاں رہتا بھی تو مقسوم اِس کا تھا یہی یہ نگر برباد اور ویران ہونا تھا، ہؤا شاہ کی باغی رعایا کیوں معافی مانگتی؟ شہر برہم اور نافرمان ہونا تھا ہوا عکس میں شامل ہؤا لمسِ جمالِ یار بھی آئنے کواَور کچھ حیران ہونا تھا، ہؤا دیر تک دُنیا سرائے میں ٹھہرتا کون ہے مجھ کو بھی کچھ دن یہاں مہمان ہونا تھا ہوا ڈال دیں ہتھیار ہم، ایسا کبھی سوچا نہ…

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ کچھ کام نہ آئے گی اب عکس گری اپنی

کچھ کام نہ آئے گی اب عکس گری اپنی توڑے گی سب آئینے آشفتہ سری اپنی پت جھڑ کے تسلّط کو تسلیم نہیں کرتے شاخوں پہ سجا کر بھی ہم بے ثمری اپنی گھر جانے کی خواہش میں یہ خوف بھی لاحق ہے لے جائے کہاں جانے پھر در بدری اپنی آئینہ مقابل ہو اور دیکھ لیں ہم تُجھ کو حائل ہے ابھی اِس میں کچھ کم نظری اپنی اس واسطے کرتے ہیں ہم عام ہُنر اپنے کھُل جائے نہ دُنیا پر ہر بے ہُنری اپنی آیا ہے وہی پہلے…

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ ( نعتیہ نظم)

جِس کے لئے زمین دلیل،آسماں دلیل جس کے لئے ہوئے ہیں یہ کون و مکاں دلیل جس کے لئے ہیں بحر کی گہرائیاں دلیل جس کے لئے پہاڑوں کی اونچائیاں دلیل صحرا میں جس کے فیض کی زرخیزیاں دلیل گلپوش پیڑ اور حسیں وادیاں دلیل جس کی گواہ بحر کی سب بے کرانیاں چشموںسے پھوٹتا ہؤا آبِ رواں دلیل یثرب تھا جو ، مدینۂ طیبہ کہا گیا اُس بے مثال کے لئے ہے وہ مکاں دلیل جس کی صداقتوںکے لئے وقف ہر یقیں ہر اعتقاد جس کے لئے بے گماں…

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ سہ سطریاں

پاکستان، جو ہم سب کی اُمّیدوں کا سرمایا ہے پاکستان، کہ جس سے ہم نے جو کچھ چاہا، پایا ہے ہم سے پوچھ رہا ہے، ہم نے اس کو کیا لوٹایا ہے؟ ٭ کبھی یہ غور تو کرناسبب ہے کیا اس کا؟ وفا کے ذکر پہ سب میری بات کرتے ہیں جفا کے ذکر پہ سب تیری بات کرتے ہیں ! ٭ شہر کے مرکزی چوراہے پر چاروں سگنل ہی سُرخ رہتے ہیں اور ٹریفِک بلاک رہتی ہے ! ٭ اب تو ایسا لگتا ہے جتنی سانسیں باقی ہیں اتنی…

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ ہائیکو (جاپانی ہائیکو نگار یوشی میکامی اِسّا کے ہائیکوز کا ترجمہ)

A man, just one… Also a fly, just one.. In the huge drawing room تنہائی کا راج اتنے کشادہ کمرے  میں میں اور اِک مکھّی O snail Climb Mount Fuji But slowly, slowly ! رینگتے کیڑے، تُو کوہِ فُجی پر چڑھ تو سہی لیکن۔۔۔ آہستہ Napping at midday I hear the song of rice planters and feel ashamed of myself Kobayashi Issa خود پر شرمندہ  دھوپ میں محنت کش مصروف اونگھ رہا ہوں مَیں

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ اَے سبھوں کے خُدا، مِری سُن تو !

اَے سبھوں کے خُدا، مِری سُن تو ! شک میں ڈوبا مِرا تیقُّن تو؟ ایک دُنیا نئی بنے شاید ! مَیں نے بھی کہہ دیا اگر ’کُن‘ تو؟ اپنے شعروں میں سانس لیتا ہوں لگ گیا اِس ہنر کو جب گھُن تو؟ ٹھوکریں مار مت زمین پہ یوں تیرا بگڑا کہیں توازُن تو؟ ماننا بعد کی ہے بات، مگر کہہ رہا ہوں جو، غور سے سُن تو ! بے حِسی مجھ پہ حملہ آور ہے جِسم میرا جو ہو گیا سُن تو ؟ جھانک کر دیکھ میرے دِل میں کبھی…

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ 16 دسمبر 1971ء(سقوطِ مشرقی پاکستان) کی یاد میں ایک نظم

جو میرے پیارے دُلارے وطن کا حصہ تھا جو میرا بازو تھا، میرے بدن کا حصہ تھا جُدا ہوا ہے تو اُس کا ملال کیوں نہ کروں؟ تباہ کِس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟ …………… جُدا ہوا جو مِرے دُشمنوں کی سازش سے اور اِس کے ساتھ کچھ اپنوں کی بھی نوازش سے بھلا بیان مَیں یہ سارا حال کیوں نہ کروں؟ تباہ کس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟ …………… اُگیں گی نفرتیں ایسا گماں کہاں تھا کبھی محبتوں کا سمندر رواں دواں تھا کبھی مَیں…

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ ہم چلے اِس دشتِ ہُوکے اُس طرف

ہم چلے اِس دشتِ ہُوکے اُس طرف یعنی اپنے کاخ و کُو کے اُس طرف جستجو کا توجو حاصل ہے، سو ہے جانے کیا ہے جستجو کے اُس طرف! ایک سنّاٹے کی آوازیں بھی ہیں ایک شورِ ہاؤہوکے اُس طرف رنگ و بُو کے سلسلے ہیں اَور بھی اِس جہانِ رنگ و بُو کے اُس طرف منتظر میرا کئی صدیوں سے ہے ایک صحرا، آبجُو کے اُس طرف اِک خموشی اِس طرف پھیلی ہوئی اِک خموشی گفتگو کے اُس طرف رقص میں ہے اِک زوال آمادگی شِدّت ِشوقِ نمو کے…

Read More