حنیف ترین ۔۔۔ دھرتی کا اپہار

دھرتی کا اپہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھرتی کا اپہار ملا جب خود میں اتر کر میں رویا تھا باہر منظر پھوٹ پھوٹ کر اتنا رویا ہر شے ڈوب گئی تھی اور میں اس پل اپنے تن کی کشتی کھیتا سات سمندر پار گیا تھا سورج تاروں اور امبر نے گلے لگا کر دھرتی کا اپہار دیا تھا سب کچھ مجھ پر وار دیا تھا

Read More

بانی ۔۔۔ ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا

ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا میں سنّاٹے کا پیکر منتظر تیری صدا کا تھا وہی اک موسمِ سفّاک تھا، اندر بھی باہر بھی عجب سازش لہو کی تھی، عجب فتنہ ہوا کا تھا ہم اپنی چُپ کو افسوں خانۂ معنی سمجھتے تھے کہاں دل کو خبر تھی، امتحاں حرف و صدا کا تھا غلط تھی راہ لیکن کس کو دم لینے کی فرصت تھی قدم جس سمت اٹھّے تھے، ادھر ہی رخ ہوا کا تھا ہمارے دوست بننے کو ضرورت حادثے کی تھی عجب اک مرحلہ…

Read More

ازور شیرازی ۔۔۔ جو کچھ بھی اندرون ہے باہر رقم نہیں

جو کچھ بھی اندرون ہے باہر رقم نہیں میرا بدن نمائشِ دنیا سے کم نہیں کہتا کوٸی نہ میر کی وحشت کو لاعلاج افسوس ہے کہ چاند کا نقشِ قدم نہیں رہتے ہیں ہر مکان میں گوشہ نشین شخص میری گلی میں رونقِ دیر و حرم نہیں تاعمر ایک تجربہ ناکام ہی رہا سب کو دکھا سکوں کہ مجھے کوٸی غم نہیں اکثر غمِ حیات میں آیا مجھے خیال جب تک ہمارا سانس ہے تب تک عدم نہیں منظر ہر ایک پہلے سے دیکھا ہوا لگے شاید مرا جہان میں…

Read More

سید ظہیر کاظمی ۔۔۔ خود سے اس طرح کٹ گیا ہوں مَیں

خود سے اس طرح کٹ گیا ہوں مَیں اپنے رستے سے ہٹ گیا ہوں مَیں من و تو کی لڑائی ختم ہوئی اپنے اندر سمٹ گیا ہوں مَیں میرے سائے میں جو جوان ہوا اس کے ہاتھوں سے کٹ گیا ہوں مَیں تیرے کوچے میں غیر کی عزت ! کیسے منظر سے ہٹ گیا ہوں مَیں ہار جانا تو کوئی بات نہیں اپنے حصے کا ڈٹ گیا ہوں مَیں شعر، دفتر، معاشرہ اور گھر کتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں مَیں سچ سے نسبت ہے اس قدر کہ ظہیر سر…

Read More