سر میں سما گئی تھی ہوا کج نہاد کے ذرّوں نے بل نکال دیئے گرد باد کے بے احتجاج ظلم کو سہنا روا نہیں چپ رہ کے حوصلے نہ بڑھاؤ فساد کے اُن کے سوا کسی پہ بھروسہ نہ کیجیو وہ پَر تراش دیں گے ترے اعتماد کے ہم نے تعلقات کی قلمیں لگائی تھیں انکھوے یہ کیسے پھوٹ رہے ہیں عناد کے جتنے گھروندے تم نے بنائے تھے ریت پر پنجے گڑے ہیں ان پہ کسی دیو زاد کے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...