عظیم محقق اور بڑے مزاح نگار مشفق خواجہ کی یاد میں … رضوان احمد

نامورمحقق،شاعر اور مزاح نگارمشفق خواجہ نے اپنی چھاپ ہر صنف پر چھوڑی ہے۔  وہ تحقیق کرنے پر آتے تھے تو موضوع کو حرفِ آخر تک لے جاتے تھے۔ شاعری انہوں نے کم کی لیکن بڑے ہم عصر شعراء اور ناقدین سے داد حاصل کی اور جہاں تک کالم نگاری کا سوال ہے تو انہوں نے ایک نئی طرز کی بنیاد ڈال دی۔ جس کی ابتدا بھی انہیں پر ہو تی ہے اور خاتمہ بھی انہی پر۔ خامہ بگوش کے نام سے انہوں نے” تکبیر“ میں جو کالم لکھے تھے، انہوں نے ایسی زبردست مقبولیت حاصل کی کہ دوسرے کالم نگار بھی ان کی تقلید کرنے لگے لیکن کسی کو بھی وہ انداز نصیب نہیں ہوا۔

مشفق خواجہ کا تعلق ایسے ذی علم خاندان سے تھاجس میں جو ذرہ جس جگہ تھا وہیں آفتاب تھا۔وہ 19دسمبر 1935ء کو لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام خواجہ عبد الحئی رکھا گیا تھا۔ ان کے والد خواجہ عبد الوحید علامہ اقبال کے قریبی لوگوں میں سے تھے اور علامہ ان پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے تھے۔علامہ اقبال کا بہت سا سیاسی تحریری کام وہی انجام دیا کرتے تھے۔

 خواجہ عبدالوحید باقاعدگی کے ساتھ روزانہ ڈائری لکھتے تھے۔ مشفق خواجہ نے والد مرحوم کی اس ڈائری کو ایڈیٹ کر کے شائع کرنے کا کام بھی شروع کر دیا تھا، مگر اسے انجام تک نہیں پہنچا سکے۔ ان کے ایک چچا زاد بھائی کرنل خواجہ عبد الرشید دیال سنگھ لائبریری کے ناظم رہے۔ ان کی اپنی بڑی ذاتی لائبریری بھی تھی۔ مشفق خواجہ کے چچا خواجہ عبد المجید نے اردو کی مشہور لغت ”جامع ا للغات “مرتب کی تھی۔مشفق خواجہ کے ایک چچا زاد بھائی خواجہ خورشید انور نے موسیقی میں ناموری حاصل کی تھی۔ اس طرح ان کے خاندان کا ہر شخص علم و ادب کے حوالے سے اعلیٰ مقام رکھتا تھا۔

مشفق خواجہ بھی سات بھائیوں اور تین بہنوں کے ساتھ کراچی منتقل ہوئے اور پھر پوری زندگی وہیں گزار دی انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا اور کچھ عرصہ تدریس کا بھی کام انجام دیا۔ مشفق خواجہ کی دلچسپیاں گوناگوں تھیں۔ انہیں فوٹو گرافی کا بھی بہت شوق تھا اور ان کے پاس اعلیٰ درجے کے کیمرے تھے۔ ان کے پاس اپنی بہت بڑی لائبریری تھی۔ جن کے ساتھ وہ اپنا سارا وقت گزارتے تھے۔

درس و تدریس کے علاوہ ان کا تعلق انجمن ترقی اردو پاکستان سے رہا اور انہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ساتھ علمی اور ادبی کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے سہ ماہی اردو ماہنامہ ”قومی زبان“ اور ”قاموس الکتب“ کی بھی ادارت کی۔ ان کی نگرانی میں انجمن ترقی اردو کی کتنی ہی کتابوں کی اشاعت کا کام انجام پذیر ہوا۔

تحقیق کے معاملے میں خواجہ صاحب کا کام بے حد اہم ہے۔ سعادت خاں ناصر کی تصنیف ”تذکرہ خوش معرکہ زیبا“کو انہوں نے مفصل مقدمے اور حواشی کے ساتھ مرتب کیا تھا۔ اس کے علاوہ”پرانے شاعر نیا کلام“کے تحت بعض ایسے شعرا پر تحقیقی کام کیا جن پر پہلے کچھ کبھی نہیں لکھا گیا۔ ”ابیات“کے عنوان سے ان کا شعری مجموعہ 1978ء میں شائع ہوا تھا۔ علامہ اقبال پر لکھی گئی احمد دین کی اولین کتاب جو نایاب تھی کیوں کہ احمد دین نے اسے خود جلوا دیا تھا، اسے خواجہ صاحب نے مفصل مقدمے اور حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیا۔ غالب اور صفیر بلگرامی بھی ان کا ایک اہم کارنامہ ہے، جس میں غالب کے شاگرد کے ساتھ باہمی تعلقات اور مراسلات پیش کی گئی ہے۔

 ان کے علاوہ بھی مشفق خواجہ کی کئی اہم تحقیقی کتابیں ہیں جن میں”جائزہ مخطوطات اردو“بہت اہمیت کی حامل ہے، جس میں پاکستان میں موجود مخطوطات اور دنیا بھر میں ان کے دیگر نسخوں کا تذکرہ ہے۔ ان کا ایک بہت اہم کام ”کلیاتِ یگانہ“ کی تدوین ہے جس پر انہوں نے 25سے 30برسوں تک محنت کی تھی۔ اس میں یگانہ کا تمام کلام جمع کیا گیا ہے، خواہ وہ مجموعوں کی شکل میں چھپ چکا تھا، غیر مطبوعہ شکل میں عزیز و اقارب کے پاس موجود تھا یا رسائل میں بکھرا ہوا تھا۔ اس مجموعے کادیباچہ، ضمیمہ، حواشی اور تالیقات انتہائی معلومات افزا اور قابل قدر ہیں۔ کلیات متن کی اغلاط سے مبرا ہے۔ یہ کلیات تدوین کا کام کرنے والوں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

مشفق خواجہ کی ایک اور جہت ان کی مزاح نگاری تھی۔ محققین کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ بے حد خشک مزاج ہو تے ہیں کیوں کہ تحقیق کرتے کرتے وہ خود بھی کرم خوردہ مخطوطہ بن جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حسِ مزاح ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ لیکن خواجہ صاحب محفلوں میں ظریف،طناز اور نکتہ سنج شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ان کی بات بات میں چٹکلہ، لطیفہ اور شگفتگی ہو تی تھی۔

محقق ہونے کے ناتے لوگوں کے بارے میں ان کی معلومات حیرت انگیز ہو تی تھیں۔ وہ ہر شخص کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ تھے۔ اسی لیے جب وہ خامہ بگوش کا کالم لکھنے پر آتے تھے تو بات سے بات پیدا کر دیتے تھے۔ ان کے کالموں کا انتخاب مظفر علی سید نے تین جلدوں میں شائع کیا تھا۔ یہ کتابیں بے ساختہ مزاح کی اعلیٰ پائے کی تصانیف ہیں اور اس معاملے میں خواجہ صاحب کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا۔

مشفق خواجہ سے مجھے ملنے اور اکتساب کرنے کے مواقع دہلی اور کراچی میں ملے تھے۔ وہ 1982ءمیں دہلی تشریف لائے تھے اور ان کا قیام ڈاکٹر خلیق انجم کے یہاں تھا۔ اتفاق سے میں بھی وہیں مقیم تھا۔ اس لیے ان سے مسلسل باتیں کرنے اور ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ مگر ان سے بات کر کے اندازہ ہوا کہ وہ یہاں کے ادب، یہاں کے لوگوں، یہاں تک کہ ان کی رہائش کے بارے میں بھی مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ پھر جب میں 1991ء میں کراچی گیا تو مشفق خواجہ صاحب کے یہاں کئی بار حاضری کا موقع ملا اور ان کی لائبریری سے اکتساب کرنے کا بھی۔ انہوں نے مجھے اتنی کتابیں عنایت کر دیں کہ میں مالا مال ہو گیا۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم کراچی میں کہاں کہاں گھومے؟ تو میں نے انہیں بتایا کہ میں کہاں کہاں گیا اور کس کس سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ نے کراچی کا مشہور قبرستان دیکھا یا نہیں؟ میں نے چھوٹتے ہی کہا قبرستان کی سیر تو محققین ہی کیا کرتے ہیں۔آپ نے رضا نقوی واہی کی نظم محقق پڑھی ہے یا نہیں:

وہ جو اک صاحب چلے آتے ہیں قبرستان سے
یہ نہیں سمجھو کہ ہیں بے زار اپنی جان سے

اس کے بعد کئی اشعار انہوں نے خود پڑھ دیے اور کہا کہ واہی واقعی بے پناہ طنز نگار ہیں۔ ذکر واہی صاحب کی شاعری سے پھر قبرستان کی جانب آگیا۔ انہوں نے قبرستان کی خصوصیات بتائیں اور کہا کہ اس میں فاتح سندھ محمد بن قاسم سے لے کر حال تک کی قبریں ہیں۔ یہ قبرستان تو ساری دنیا میں مشہور ہے اس پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور معرو ف مستشرق انا میری شمل نے بھی اس پر ایک کتاب لکھی ہے۔ کراچی کے قبرستان کا ذکر خواجہ صاحب نے اتنے اشتیاق اور اتنی تفصیل سے کیا کہ میری خواہش ہوئی کہ میں وہ قبرستان دیکھوں لیکن وقت کی تنگی کے سبب ایسا نہ ہو سکا۔ وہ میری خواجہ صاحب سے آخری ملاقات تھی۔ واپسی کے بعد ان سے خط و کتابت کا سلسلہ رہا۔ کچھ دنوں سے ان کی علالت کی خبریں آرہی تھیں اور پھر اچانک ہی یہ خبر آئی کہ 21فروری 2005ءکو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی علم کا وہ خزینہ دفن ہو گیا۔جسے سب مشفق خواجہ کہتے تھے۔

Related posts

Leave a Comment