ضامن جعفری کی ”ریش خند“ شاعری: خصوصی مضمون …. ستیہ پال آنند

طنزاور وہ بھی ”ریش خند طنز“ ایک مشکل صنفِ ادب ہے۔ اس میں ہتک، قدح، بد گوئی کی گنجائش نہیں۔ اس میں مشمولہ ہنسی اور خندہ زنی کے عناصر اسے ترچھا پن اور اس ترچھے پن کی کند چھُری کی کاٹ تو عطا کرتے ہیں، لیکن عیب گیری اور چشم نمائی سے دور رکھتے ہیں۔اہل قلم نے اردو نثر میں جب اسے رواج دیا تو ’انشایئہ ‘ یا’خاکہ‘ کی اصناف ادب نے اسے خود میں جذب کر لیا۔ ذات اور واردات کے حوالوں سے کسی بھی منظر نامے کو یا اس منظر نامے میں مشمولہ ایک فردِخاص کو اپنا نشانہٴ مشق بنا کر اس کے رد و قدح اور زبان کے دوہرے استعمال سے اس کی گوشمالی ایسے خاکوں کی شناخت بن گئی۔ جب کالم لکھنے کا رواج آیا تو اخباری کالم نگاروں اور منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے مزاحیہ رنگ میں لکھنے والے قلم کاروں نے مالِ غنیمت سمجھ کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پیشتر صنف شعر میں سالہا سال تک ہجوایک راسخ صنف سخن رہی اور اس کا اسلوب اور رویہ تنقید،تنسیخ، بد کلامی،بد اسلوبی، یعنی منفی اقدار کا حامل رہا۔ سودا جب کسی سے ناراض ہوتے تو فوراً اپنے نوکر کو آواز دیتے، ”ارے غنچہ، ذرا لائیو تو میرا قلم دان! میں اس کم بخت کی خبر لوں!“

 دوسری طرف اردو میں ظرافت اور طنز کے نمونے امیر خسرو سے لے کر آج تک ملتے ہیں۔ کھڑی بولی میں اسے ” لوکوکتی “ کہا گیا۔ اردو ادب کے مورخ کو فارسی ادب میں یہ صنف سخن نہیں ملتی، صرف ”ہجو“ ہے، جس کی درجہ بندی اپنے وقتوں میں فارسی نقاد ملائکی نے کی اور اس کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔ یہ ہیں ”ہجوِ جوی“ اور ”ہجوِ ملیح“۔ پہلی قسم بد کرداری اور بد اعمالی کی کھلے الفاظ میں مذّمت ہے۔ دوسری قسم وہ ہے، جو دیکھنے میں تعریف دکھائی دے لیکن اصل میں موضوع سخن فرد کی برائی مقصود ہو۔ ملائکی ایک شاعر بدرال باری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بدرال باری ہذیان سرائی میں اپنا جواب نہیں رکھتا، لیکن ملائکی ہی ایک اور شاعر نو خواستہ کو ہجوِ ملیح کا استاد قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ گالی بھی بکتا ہے تو پھول کی چھڑی کی طرح لگتی ہے۔

انیسویں اور بیسویں صدی کے وسط تک اس کلام کو جو سامع یا قاری کو ہنسنے یا کم از کم ریش خند مسکرانے پر مجبور کرے، ”ظریفانہ“ یا ”مزاحیہ“ کلام کہا گیا۔ جب اکبر الہ آبادی نے کہا:

 پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
 لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

توشاعر ظریفا نہ انداز میں نہ ہی تو پھکڑبازی کر رہا تھا اور نہ ہی مزاحیہ رنگ میں ٹھٹھول سے کام لے رہا تھا۔ وہ تو براہِ راست ایک پیشہ ورانہ طبقے کے اطوار کو نشانہٴ مشق بنا کر استہزا اور طنز و تشنیع کے لہجے میں ایک ایسی سماجی حقیقت پیش کر رہا تھا جس سے لوگ نا واقف نہیں تھے۔
 
یہ بھی کہا گیا ہے کہ طنزیہ شاعری اعلےٰ پیمانے کی نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس میں شاعری کی ان اعلےٰ اقدار کا فقدان ہے جو اسے ”جزویست از پیغمبری“ کا رتبہ دیتے ہیں اور کہ یہ وقتی، وارداتی یا عارضی قسم کی شاعری ہے، جس کا کوئی ابدی یا تاریخی مقام نہیں ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے، لیکن ادب میں آپ یونانی کامیڈی نویس ارسٹوفنیز کو کیا رتبہ دیں گے؟ یا شیکسپیئر کی کامیڈی کو کس مقام پر رکھیں گے؟رتن ناتھ سرشار کے لیے کون سی جگہ کا انتخاب کریں گے؟ خوجی کا کردار آج تک زندہ ہے اور مکالمے کا یہ حصہ۔ ”قرولی بھونک دوں گا “ پڑھنے والے کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔میری رائے میں ہر صنفِ سخن کے لیے بلا ریب و شک یہ گنجائش ہے کہ وہ تا دیر زندہ رہے، اور طنزیہ شاعری اس اصول سے خارج نہیں ہے۔

اب آئیں اپنے موصوف ضامن جعفری کا گُن گان کریں۔ موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطحوں پر ضامن جعفری عصر حاضر کے قومی، بین الاقوامی، سیاسی اور مذہبی منظر نامے کو اپنی استہزائی عینک سے دیکھتے ہوئے اس سے وہی سلوک کرتے ہیں جو ایک کارٹونسٹ اپنے سبجیکٹ کے ساتھ کرتا ہے، یعنی قاری اس بگڑی ہوئی یا بگاڑی گئی شکل کو پہچان کر اس کے ان پوشیدہ زاویوں سے بھی واقف ہو جاتا ہے،جو اس کے ذہن میں کہیں تھے تو سہی لیکن تصویر کش نہیں ہوئے تھے۔ اپنے ملکوں کی سیاست سے ہم سب واقف ہیں کہ کیسے قومی خزانہ لوٹنے والے ہی عوام کے نمائندوں کے طور پر وزارتی کرسیوں کو رونق بخشتے ہیں اور الیکشنوں کے دوران کیے گئے وعدوں کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں اور اس موضوع کو لے کر تقریباً سبھی طنز نگار اخبار وں کے کالموں میں ان پر تیزاب کے چھینٹے برساتے رہتے ہیں، لیکن جو خوبی میں نے ضامن میں دیکھی ہے، وہ یہ ہے کہ اخبار کے مزاحیہ کالموں کے میعار سے کہیں بلند اپنی نظموں میں وہ اختصار سے کام لیتے ہوئے بھی پتے کی باتیں اس صفائی سے کہہ جاتے ہیں کہ ان کے جملوں پر ضرب المثل کا گمان ہونے لگتا ہے۔

 یہ سچ ہے کہ قطعہ ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں چار سطروں میں آپ ایک پوری نظم کا نچوڑ پیش کر سکتے ہیں۔ یہ کیفیت شاعر کے ان سب قطعوں میں بخوبی پائی جاتی ہے، جواس موضوع کے مختلف پہلوؤں کو لے کر لکھے گئے ہیں۔ ان قطعات میں چوتھا مصرع اس آن اور شان سے وارد ہوتا ہے، کہ اس کو ’پنچ لائن‘ یا کلیدی سطرکہا جا سکتا ہے۔موضوعاتی سطح پر یہ قطعات اکثر و بیشتر حالاتِ حالیہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔برصغیر اور خصوصی طور پر پاکستان کے حوالے سے، سیاست، سماج اور معاشرے کی جن بدعتوں کوضامن تمسخر آمیز طنز کا نشانہ بناتے ہیں، ان میں ایک بے حد اہم موضوع یہ ہے کہ اخلاقی قدروں اور شفاف کارکردگی کی قربانی دے کر سیاسی لیڈر کس طرح اپنے ہاتھ رنگتے ہیں۔ اس موضوع کو نظموں کے برعکس قطعات میں زیادہ سادگی اور پُر کاری کے امتزاج سے پیش کیا گیا ہے۔
 
”پچاس سالہ جشنِ آزا دی“اس سلسلے کا ایک کلیدی قطعہ ہے، ملاحظہ کیجئے:
    
عاجز ہیں رہنماؤں کے سود و زیاں سے ہم
لاتے ہیں چھانٹ چھانٹ کر ان کو کہاں سے ہم
گرم ِسفر، پچاس برس سے ہیں، سچ ہے یہ
یہ بھی ہے سچ، وہیں ہیں چلے تھے، جہاں سے ہم

اس قطعے کے تیسرے مصرعے میں ”گرم ِسفر“ کہہ کر چونکہ سفر کا استعارہ پیش کیا گیا ہے،چوتھا مصرع اس کی تکمیل تو کرتا ہی ہے، لیکن ایک کڑدی حقیقت کو بھی قاری کی نظروں کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ یعنی پچاس برسوں کے لمبے سفر کے بعد ہم دیکھتے کیا ہیں کہ جہاں سے سفر کی شروعات ہوئی تھی، وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔

”کراچی“کے زیر عنوان ایک قطعہ بھی چوتھے مصرعے میں یہی کیفیت پیش کرتا ہے:
 
مسلسل کاروبارِزیست میں اس سے خلل ہو گا
کہ اس کا حل نہ ماضی میں تھا، اب ہے اور نہ کل ہو گا
گذارش میری بس اتنی ہے اربابِ سیاست سے
معاشی مسئلہ ہے، بد معاشی سے نہ حل ہو گا

اس قطعے میں چوتھے مصرعے کو ’پنچ لائن‘ کا کردار نبھانے کے لیے ضامن نے”معاشی“ اور ”بد معاشی“ کوآپس میں گتھم گتھا کر دیا ہے اور اس طرح ایک نئی صنعت غزل گو شاعروں کے لیے ایجاد کی ہے۔ اس کے موجد تو قبلہ ضامن صاحب ہی ہیں لیکن ان کی اجازت کے بغیر ہی، کوئی اور مناسب نام نہ ملنے کی وجہ سے، میں اس کے لیے ”صنعتِ معاش و بدمعاش“ کا نام تجویز کرتا ہوں۔امید ہے یہ نام استادانِ عروض کو پسند آئے گا۔

قطعے کی صنف میں ضامن نے گرہ بندی بھی کی ہے اور چونکہ چچا غالب ہر گرہ گیر شاعر کے لیے ایک آسان اسامیِ موروثی ہیں، اس لیے وہ ان سے بچ نہیں پائے۔بچ سکتے بھی کیسے تھے، چچا غالب کی گرہ کاٹنے کو تو ایک سے بڑھ کر ایک” گرہ کٹ“( بشمول راقم الحروف) موجود ہے۔دیکھئے ایک قطعہ جو پاکستان کی سیاسی زندگی کی تاریخ میں ایک وقتی موضوع ”نج کاری کمیشن“ کے قیام پر ہے۔    
    
ہمیں خو د اپنا شوقِ سعی ٴ لا حاصل پسند آیا
برائے رہبری ڈاکو، کبھی قاتل پسند آیا
چچا غالب کی ہے، یہ رائے نج کاری کمیشن پر
”تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا“

طنز کے لیے موزوں تریں صنفِ سخن نظم ہے، لیکن نظم کی ’خانقاہِ درسِ عبرت ‘سے پہلے ہمیں ’ محفلِ پُر گویانِ غزل‘ میں جھانک کر دیکھنا ہو گا کہ اس میں ضا من کی شرکت کس ضمن میں ہے اور کیا وہ اس میں بھی اپنے تیر و تفنگ ساتھ لائے ہیں کہ نہیں۔ غزل کا چسکا جسے لگ جائے وہ اسے افیون کی طرح چاٹتا رہتا ہے، اور شاید ضامن بھی اس نشے سے مبّرا نہیں ہیں، لیکن ہر نشے کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں، اور غزل کی تفسیرچونکہ یہ ہے، ”بازی کردنِ محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیثِ محبت و عشقِ زنان“، اس لیے ہمارے طنز نگار شاعر ضامن بھی اسی ’بازی‘، ’حکایت‘، اور ’حدیث‘کی تکون میں رہ کر ہی اپنی بات کہتے ہیں اور اس میں’ عشقِ زنان‘ کو بھی شاملِ حال رکھتے ہیں۔

اس مجموعے میں کچھ طرحی غزلیں بھی ہیں اور چونکہ یہ طرحی ہیں، اس لیے ہر شعر طرح دار بھی ہے اور طرحیں نکالتا بھی ہے۔ ایک طرحی غزل کے کچھ اشعار صنفِ غزل کے پیش پا افتادہ مرقعِ الفاظ کو نشانہٴ مشق بناتے ہیں۔ قاریئن کرام دیکھیں گے تو محظوظ ہوں گے۔
    
بتایئے کوئی حد ہے دروغ گوئی کی
نگاہ برق لگے، اور دل کباب لگے    
یہ شاعروں کو حسینوں سے دشمنی کیوں ہے
ہے کوئی چیز کہ جو ہے، وہی جناب لگے
    
اور مصرع طرع ”کبھی وہ چاند، کبھی گل، کبھی کتاب لگے“ پر گرہ بندی کی یہ مثال دیکھئے۔
     کبھی وہ چاند، کبھی گل، کبھی کتاب لگے
    مجھے تو، آپ کی قبلہ، نظر خراب لگے

ایک اور طرحی غزل کے کچھ اشعار دیکھ کر بتایئے کہ بے چاری پروین شاکر، جس کی برسی پر یہ غزل اسلام آباد کے ایک مشاعرے میں پڑھی گئی، کیسے کیسے نہ اپنی قبر میں تڑپی ہو گی، لیکن کیا ضمانت ہے اس بات کی کہ ضامن جنہوں نے چچا غالب کو نہیں بخشا، وہ پروین شاکر کو طنز کے ضمن میں بخش دیں گے۔ کچھ اشعار دیکھئے۔

پہلے بجا تھا، رہتا تھا غصہ جو ناک پر
اب ناک کٹ گئی ہے، اتر جانا چاہئے
 الجھا ہوا ہوں، مسئلہٴ حور و یار میں
یہ نقد، وہ ادھار، کدھر جانا چاہئے

خود کو سدھارنے کا طریقہ بس ایک ہے
ناصح کو لے کے، آپ کے گھر جانا چاہیئے

ضامن، نظر جھکا کے وہ شرمائیں جب کبھی
موقع وہی ہے، تم کو پسَر جانا چاہئیے

 اب ”پَسر جانا“ خالص یا ’نخالص‘ غزل کے شعرا کو بطور محاورہ قابلِ قبول ہے یانہیں، ضامن کی بلا سے، کیونکہ روز مرہ میں یہ لفظ مستعمل ہے، اور پھر انہوں نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ طنز گو کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بال کی کھال ادھیڑے اور پھر اس کھال کے پاپوش بنوا کر زبان کے بگڑنے کی دہائی دینے والے اہلِ زبان کے گلے میں ہار کی صورت میں ڈال دے۔

اب طرحی غزل کا ایک اور نمونہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اس غزل کے کچھ اشعار حالات حاضرہ پر تیکھے تبصرے کے علاوہ ایک خوبی یہ بھی رکھتے ہیں کہ صنف غزل کے وہ استعارے جو پیش پا افتادہ ہیں اور اب” کلیشے“کی شکل اختیار کر چکے ہیں (دل، عشق، محبت، قافلہ، دیارِحسن، نامہ بر، شیخ) اس میں فیّاضی سے برتے گئے ہیں۔    
    
”تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے“
اتنا تو ہو کہ ان کے محلے میں گھر ملے
    
ہر وقت جان سولی پہ، ہر سانس آخری
بغداد بہتر، ایسی محبت اگر ملے

سب اہل قافلہ تھے، مگر قافلہ نہ تھا
تنہائی تھی اگر چہ بہت ہم سفر ملے

دن کو منظو ر ہر ستم، لیکن
شب کو بہلا لیا کرے کوئی
    
کہہ رہا ہوں مذاق میں سب کچھ
’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘

طرحی غزلوں کے علاوہ بھی ضامن نے صنف غزل میں جس طرح کے طنز و مزاح کی پھول جھڑیاں جلائی اور ہوائیاں اُڑائی ہیں، انہیں دیکھنے سے ہی بنتی ہے۔ میں صرف کچھ مثالوں پر ہی اکتفا کروں گا:

اُلٹی سیدھی کوئی پٹّی وہ پڑھاتے ہیں ضرور
گھورتے ہیں مجھے اُس بزم میں آنے والے

آپ کو عہدِ وفا یاد نہ ہو، لیکن ہم
دارِ فانی سے اکیلے نہیں جانے والے

    چپکے سے کھِلائیں گے کوئی گل، جو یہ حضرت
    چُپ چاپ کھڑے ہیں تری دیوار کے پیچھے

     آئی نہ خراش ایک بھی ضامن کے گلے پر
    وہ خود ہی تڑپنے لگے تلوار کے پیچھے

مندرجہ ذیل شعر میر تقی میر کی زبان میں پڑھنے سے ایک خاص قسم کا لطف ملتا ہے۔
    
     دشمنِ جانی ہے وہ، یہ میں بھی جانوں ہوں مگر
    جب نظر آوے ہے ظالم، اک غزل ہو جائے ہے

      اپنا درُست ہونا  تو کارِ محال ہے
    سو ہم نے طے کیا ہے، کہ دنیا درست ہو

اس شعر میں شاعر کا ارادہ ذات سے آگے جا کر کائنات کو تسخیر کرنے کا ہے، لیکن یہ ارادہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ذات کو تسخیر کرنا کارے دارد والا معاملہ ہے، لیکن اگر آپ اس شعر کے نفسِ مضمون کا اطلاق سیاسی رہنماؤں، بینچ اور بار کو زینت بخشنے والے ججوں اور وکیلوں، اور شرعی داڑھیاں چہرے پر سجائے ہوئے مولویوں پر کریں تو آپ کا مزہ دو چند ہو جائے گا۔

 خدا جانے بے چارے اُلّو سے ضامن صاحب کا کیا بَیر ہے، وہ اسے انسانی اوصاف سے مالا مال کرتے رہتے ہیں اور اس عمل میں وہ انسانوں کو اس کی صفات کا خلعت پہنا دیتے ہیں۔ ایک نظم اس بند پر اختتام پذیر ہوتی ہے:

آواز دے رہی ہے خرد خاص و عام کو
بدلو خدا کے واسطے اب اس نظام کو
کب تک خواص لوٹیں گے بیکس عوام کو    
بہتر ہے بھولا صبح کا آ جائے شام کو
    
اب خود عوام سوچیں، کہ کِس سر پہ تاج ہے
اُلّو تو مطمئن ہے، کہ پّٹھوں کا راج ہے!

 اندھیری رات کا پرند المعروف’ چغد‘ واقعی’ بیوقوف‘ کے معنی میں اُلّو ہے کہ نہیں لیکن ضامن اپنے اشعار میں اس اسم با مسمّیٰ کو ذو معنویت کی سطح پر اسمِ ذات بنا کر پیش کرنے میں کوئی غفلت نہیں کرتے۔ یہ شعر ملاحظہ ہو۔

 الّو کو اپنے باب میں کچھ سوجھتا نہیں
بس ایک دھُن سوار ہے، پٹّھا درست ہو
 
”احتساب“ضامن صاحب کی مسلسل غزل ہے، یا نظم، اس کا مجھے ادراک نہیں، لیکن موضوع، متن اور ردیف و قافیہ کے اسلوب میں غزل ہوتے ہوئے بھی، چونکہ ایک عدد عنوان اس کی پیشانی پر آویزاں ہے، میں اسے نظم ہی کہوں گا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

کس سے ہو جراتِ نشان دہی
اپنا خانہ خراب کون کرے                        
    
ہو جب آپس کی بات، کیا کہیے
 ایں جناب، آں جناب کون کرے!
 ْ
بابِ نظم کھلتے ہی ایک ایسا گلشن نظر آتا ہے جس میں ایک سے بڑھ کرایک نادر و نایاب نمونے موجود ہیں۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے یہ تصور کر لیں کہ غزل کا ایک شعر ایک پودا ہے تو نظم کے بارے میں یہ تشبیہ شجر تک پہنچتی ہے، کوئی سرو قد، کوئی اونچا، لمبا تڑنگا، کوئی چھتنار اور کوئی سرسبز جس سے بیلیں بل کھا کھا کر لٹک رہی ہوں۔ بالکل یہی کیفیت ان نظموں کی بھی ہے۔ بیشتر مختصر ہیں، لیکن اپنے اندر ایک مجموعی تاّثر رکھتی ہیں۔

”تہیہ“صرف دو بندوں پر مشتمل ایک ایسی نظم ہے جس میں شاعر ایک بے ایمان سیاسی لیڈر کی زبان میں بولتا ہے۔ وعدے، وعدے اور پھر ان وعدوں کو پورا کرنے کا تہیہ، لیکن نظم کی آخری کلیدی سطر جونہی وارد ہوتی ہے، قاری کو یہ علم ہو جاتا ہے، کہ  ۔۔۔اب نظم پڑھیئے:

ہمارے دور میں ہو گا نہ جان و مال کا خطرہ
غریبوں کو نہ ہونے دیں گے استحصال کا خطرہ
ہم اب کے سے نہیں لیں گے کسی جنجال کا خطرہ
نہ ہو گا مال تو کیوں ہو گا بیت المال کا خطرہ
مصمم اب ارادہ کر لیا ہے، اب اٹل ہو گا
یہ دنیا دیکھ لے گی فیصلوں پر جب عمل ہو گا
 تہیّہ کر چکے ہیں ہم کہ رشوت ختم کر دیں گے
خدا کے نام پر یہ قتل و غارت ختم کر دیں گے
کوئی جاہل نہیں ہو گا، جہالت ختم کر دیں گے
مبارک اہلِ پاکستان، غربت ختم کر دیں گے
مگر یہ سب کریں کیسے، یہی تو غور کرنا ہے
تہیّوں پر عمل ہو، یہ تہیّہ اور کرنا ہے

اس نظم کا آخری مصرع ایک ضرب المثل کی شکل میں ایک ڈنکے کی چوٹ سا وارد ہوتا ہے۔ اس میں جو طنز پنہاں ہے، جو شوخی اور کاٹ ہے، اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس کی تاریخ سے واقف ہیں۔ یہ مصرع ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے۔اور یہی شاعر کا کمال ہے۔

کلاسیکی غزل میں شراب نوشی کے حوالے سے لگ بھگ دوصدیوں تک زاہد، ناصح،شیخ، واعظ، مبلغ، مولوی اور اس قماش کے دوسرے بزرگ اردو شاعر کے زیر عتاب رہے ہیں۔ میر تقی میر سے لے کر آج تک روایتی شاعر نے مذہبی بنیاد پرستی کے برعکس لامذہبیت، انکار نفس کے بر خلاف صنم پرستی، عبادت، بندگی اور طاعت کی جگہ ترک رسوم اور انحراف کو ترجیح دیتے ہوئے موحد اور مومن کو کانٹوں میں گھسیٹا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شاعر لا دین ہے، بلکہ ایک شعری روایت ہے اور اس روایت کے طور پر کچھ ایسے شاعروں نے بھی، جو خود میخوار نہیں تھے، لا دین نہیں تھے اور پانچ وقت کے نمازی تھے، مومنین و مومنات کو ایک جماعت کے طور پرنشانہٴ مشق بنایا ہے۔ اس لیے

جب ضامن جعفری کو کچھ دیر کے لیے اپنے روزمرّہ کے موضوعات یعنی سیاسی رہنماؤں کی چالبازیوں سے فرصت ملتی ہے، تو وہ اس قسم کے شعر بھی کہہ لیتے ہیں:

تصویرِ یار دیکھ کے، زاہد نے یہ کہا
بیشک! کبھی کبھار، اُدھر جانا چاہئیے

 لیکن چونکہ ضامن صاحب کی اصلی شعری صفات یعنی طنز و تشنیع صنف ِنظم میں اپنے گل بہتر انداز سے کھلاتی ہے، ہمیں ان کے پیش کردہ ایک مولوی صاحب سے ضرور ملنا چاہئے۔ ”مولوی صاحب جنت میں“ کے زیر عنوان اس نظم میں مولوی صاحب کو بعدِ مرگ بھی جنت میں ایک حور پر رال ٹپکاتے ہوئے دکھایا ہے،اور ضامن صاحب شاید اپنے تخیل کی آنکھ سے، جنّت کی کسی گل بدن جھاڑی کے پیچھے چھُپے ہوئے، مولوی صاحب کو دیکھ رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو کہ جنت میں نو آمدہ مولوی صاحب کی چہل قدمی کی کس اندازسے منظر کشی کی گئی ہے:

دو قدم آگے بڑھے تو حور اک آئی نظر
حسن کی ہر شرح و تفسیر سے تھی بالا تر
اس سے بولے، کون ہو تُم اور بُرقع ہے کدھر
کس جگہ رہتی ہو،شاید پاس ہی ہو میرا گھر
ہو ابھی ناکتخدا یا بس گئیں؟ دل شاد ہو
میں ابھی آیا ہوں، سَیٹ ہو لوں تو گھر آباد ہو
سُن کے مولانا کی باتیں، دیکھ کر ان کے یہ گُن
حوراک یوں دوسری کے کان میں بولی کہ سُن
منحنی سے قد پہ، یہ ہنگامہ آرائی کی دھُن
ہیں مجّسّم، معنی ٴ کُّل قلِیلُن فِتتَن
آدمی لگتے نہیں، مجموعہ ٴ جنّات ہیں
بولتے سنیے تو اْنَّ اَنکَرُ الاصوات ہیں

منظر کشی کا کام جونہی تمام ہوتا ہے، شاعر کی بذلہ سنجی، ظرافت اورتفنن آمیز تنقید کی حِس در آتی ہے۔ اسلام کے نام پر ”مولوی صاحب“ جیسے لوگوں نے اِس دنیا میں کیا کیا فساد برپا کیے ہیں، اِ س بات کا ادراک اُس دنیا کی ”حور“ کو بھی ہے، جس کے ساتھ مولوی صاحب رنگ رلیاں منانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان سطروں کو حالاتِ حاضرہ کے سیاق و سباق میں دیکھنا ضروری ہے۔

ان کے مذہب میں نہیں تھی کیا دل آزاری حرام؟
کون سے مذہب کو یہ اِسلام کا دیتے تھے نام؟
نام پر اَللہ کے مروایا سبھی کو صبح و شام
خود نہیں حاصل کیا لیکن شہادت کا مقام
مجھ کو ڈر ہے حور و غلماں سب کو لڑوائیں گے یہ
اب یہاں ذاتی نظامِ مُصطفیٰ لائیں گے یہ    

 مولویوں کے لیے تمسخر اور تضحیک بجا ہے اور یہ ہر اردو شاعر کو زیب دیتا ہے کہ وہ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے، لیکن ضامن کے ہاں سنجیدہ اور وقا ر آمیز تنقید کی کمی نہیں ہے اور یہ تنقید وہ کسی جماعت یا فرد خاص یا پیشے کے بارے میں نہیں، موجودہ عالم اسلام کے بارے میں کرتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ وہ خود واحد متکلم کی حیثیت سے گویا خود کو ہی طعن و تشنیع سے نوازتے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ’پدرم سلطان بود ‘ ہی ایک طرّہٴ امتیاز ہے جو مولوی اور مبلغ اپنے سر پر سجاتے رہتے ہیں اور جدید دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی امت کی ہتک تصور کرتے ہیں؟ ضامن کی یہ چار سطریں زیر عنوان ”عالمِ اسلام“ آبا پرستی کی ہو بہو تصویر ہیں:

محوِ آرام ہوں مجھ کو نہ ستایا جائے
میرا ماضی نہ مجھے یاد دلایا جائے
میرے طابع تھیں اگر سلطنتِ روم و عجم
وہی نا اہل تھے، ان کو ہی بتایا جائے

میں پہلے تحریر کر چکا ہوں کہ سیاسی حوالے اور سیاسی صورتِ حال کے منظر نامے بیشتر پاکستان سے متعلق ہیں اور یہ ضروری بھی ہے کہ شاعر جس دنیا سے واقف ہے، جس میں وہ رہ چکا ہے اور جس کو وہ اب مغربی دنیا میں رہتے ہوئے ایک تقابلی پلڑے میں رکھ کر دیکھ سکتا ہے، اسی کی صحیح تصویر پیش کرے۔ ”جمہوریت“ ضامن صاحب کی ایک ایسی نظم ہے جو شاید اس مجموعے میں سب سے زیادہ تلخ ہے، اور یہ تلخی طنز کی اس حد کو چھوتے چھوتے رہ جاتی ہے جسے نفرین یا تفضیح کہتے ہیں۔ میں صرف ایک بند پیش کرنے پر ہی اکتفا کروں گا:

کون سی جمہوریت؟ پستے رہیں جس میں عوام؟
کون سی جمہوریت؟ جو سب کو لوٹے صبح و شام؟
کون سی جمہوریت؟ انصاف ہو جس میں حرام؟
کون سی جمہوریت؟ بن جائے جو عبرت مقام؟
عزتیں جس میں رہیں پامال، وہ جمہوریت؟
رہنما بس جس میں ہوں خوشحال، وہ جمہوریت؟

 میں نے اپنی ساٹھ برسوں کی ادبی زندگی میں اکثر اس بات پر غور کیا ہے کہ اچھے شاعر کے اوصاف کیا ہیں اور خود کو بطور شاعر اس تعریف سے منہا کرتے ہوئے آخر اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ اچھا شاعر وہ ہے جسے اسلوب کی سطح پر ترصیعی اور غالب کی طرح ’گل افشانیٴ گفتار‘ سے بہتر وہ بے تکلف اور شائستہ و شستہ عبارت پسند ہو، جو عوام کی زبان کے زیادہ قریب ہے اور جو سچی اور کھری بات بھی کہے اور جچی تلی ہوئی بھی کہے۔

 حالانکہ ضامن کئی بار اساتذہ (خصوصاً مرزا غالب ) کے کلام سے زباں زد عام ضرب المثل مصارع کا انتخاب کر کے، صنعت حسن تضاد کی رُو سے، اپنے موزوں کردہ مصرعے کے ساتھ تلطیف عبارت (euphemism)میں یوں منسلک کر دیتے ہیں کہ سلکِ بیان میں اس کا مزہ دو چند ہو جاتا ہے، لیکن ان کی اپنی زبان رواں ہے،چلتی پھرتی، چہل قدمی کرتی ہوئی یا دوڑتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور مشاعرے میں سامعین کو یا کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے ایک قاری کو کوئی تردّد نہیں کرنا پڑتا، وہ بھی اس کے ساتھ چلتا پھرتا ہے، چہل قدمی کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر دوڑتا بھی ہے۔

موضوع، مضمون، متن اور اسلوب، اِن سطحوں پر ضامن کا کلام ایک اچھے طنز نگار کا کلام ہے۔ اس میں مثبت اقدار کی غماضی کی گئی ہے۔ سماج کے ا ستحصال پسند حکمراں طبقے کے ا فراد، مذہب کے بُنیاد پرست مولوی، اخلاق کا دوہرا معیار رکھنے والے لیکن اخلاقی قدروں کی ڈینگ مارنے والے اشرافیہ کے فرزند، جمہوریت کا ڈھونگ رچانے والے حکمران، غریبوں کا خون چوسنے والے جاگیر دار اور انتظامیہ کے بادشاہ، سب ان کی نظر میں ہیں اور وہ کسی کو نہیں بخشتے۔ ان کی تنقید آرائشی نہیں ہے، اس میں کند چھری کی سی کاٹ ہے جو تا دیر گلے پر پھرتی ہے اور شہ رگ کے کٹنے سے پہلے ہی اٹھا لی جاتی ہے۔ ان کی تنقیدکسی فرد واحد کی بُرائی نہیں ہے،بلکہ سماج کی بدعتوں کے خلاف استہزائی احتجاج ہے۔ اس استہزا میں جہاں نرم لہجے میں پیروڈی یا شوخ چشمی ہے، وہاں سخت لہجے میں تضحیک اور طعن و تشنیع بھی ہے۔ جہاں ریش خند ہے، وہاں زہر خند بھی ہے۔ جہاں مذاق مذاق میں گستاخی ہے، وہاں بے ادبی اور حقارت بھی ہے۔ جہاں زٹل اور چُہل ہے، وہاں ہجو اور احتساب بھی ہے۔اس لحاظ سے اس کا دائرہ وسیع ہے اور ایک وسیع النظر شاعراپنی روشن دماغی، ذکاوت اور نکتہ رسی سے ہر مضمون کو متن میں ڈھال سکتا ہے۔

Related posts

Leave a Comment