مظفر حنفی ۔۔۔ میں اٹھ گیا تو شورِ فغاں بھی نہیں اُٹھا

میں اٹھ گیا تو شورِ فغاں بھی نہیں اُٹھا
لیکن کرائے پر وہ مکاں بھی نہیں اٹھا

مذہب نہیں بتایا نہ امداد کی قبول
کشتی میں اک حبابِ رواں بھی نہیں اُٹھا

بستی جلانے والو تمھیں کیا بتاؤں میں
مدّت سے میرے گھر میں دھواں بھی نہیں اُٹھا

ہم دم بخود تھے اور ادھر لُٹ رہے تھے لوگ
جب ہم کٹے تو شور و ہاں بھی نہیں اُٹھا

بڑھتے ہوئے قدم کو نہیں روکتا کوئی
بیٹھا تو پھر قدم کا نشاں بھی نہیں اُٹھا

Related posts

Leave a Comment