جلیل عالی ۔۔۔ کدھر کھلتا ہے در کوئی

کدھر کھلتا ہے در کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گزرتا ہی نہیں ہے وقت جبری چھٹیوں کا ایک اک لمحہ صدی جیسا گھریلو کھیل کوئی کب تلک کھیلے کسی تقریب میں شرکت تو کیا گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں ہے اپنے پیاروں کے بھی چہروں سے دل اکتانے لگے ہیں بھولتے جاتے ہیں سب آداب جو تہذیب کا حاصل تھے سرمایہ تھے خوش آہنگ بہتی زندگی کا فاصلہ تو فاصلہ ہے صرف جسموں تک نہیں رہتا اتر جاتا ہے روحوں میں ملاقاتوں کے آئینے چِھنے تو اپنی پہچانیں بھی کھو بیٹھے…

Read More