رخسانہ سمن ۔۔۔ بے عمل زمانے میں تیرگی بہانہ ہے

بے عمل زمانے میں تیرگی بہانہ ہے سب دیے بجھا دیجے آفتاب لانا ہے تم نہیں ہو چارہ گر، زخم کیوں دکھائیں ہم یاس کے پہاڑوں کو دردِ دل سنانا ہے کس کی آرزو ہو تم، کس کی جستجو ہیں ہم بات تو ذرا سی ہے، طعنہ زن زمانہ ہے واعظا! خدا لگتی گر کوئی کہے تو سُن تیری بات مبہم ہے، گفتگو فسانہ ہے عشق اور وحشت میں فرق ہے فقط اتنا وحشتوں کے تیروں کا عشق ہی نشانہ ہے

Read More

رخسانہ سمن ۔۔۔ دی گئی ہر صدا کا محور ہے

دی گئی ہر صدا کا محور ہے عشق کے مدعا کا محور ہے جس نے جینا سکھا دیا مجھ کو وہ مری ہر دعا کا محور ہے میں کہ مطلوب ہی نہیں اس کو وہ کہ میری بقا کا محور ہے وہی محور ہے میری سوچوں کا وہی صوت و نوا کا محور ہے کون سمجھائے جا کے یہ اس کو وہ مری التجا کا محور ہے

Read More