صائمہ اسحاق ۔۔۔ چپکے چپکے جھانک رہا تھا دروازہ

چپکے چپکے جھانک رہا تھا دروازہ دیواروں کو ہانک رہا تھا دروازہ مجھ کو رستہ دینے کی سرمستی میں خود پر تارے ٹانک رہا تھا دروازہ تم آئے تو دیپ جلے ہیں چوکھٹ پر ورنہ مٹی پھانک رہا تھا دروازہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند نہ لگ جائے گھر کی قیمت ٹانک رہا تھا دروازہ داغ لگے جب انگنائی کی چادر پر گھر کی لجّاڈھانک رہا تھا دروازہ

Read More

صائمہ اسحاق ۔۔۔ بند بنا کر روک دیا ہے باغی کو

بند بنا کر روک دیا ہے باغی کو سرکش ہوتی خواہش کی آزادی کو محرم ہونے والا پیڑ سمجھتا ہے بات کی تلخی کھاتی ہے شادابی کو رفتہ رفتہ سب معمول پہ آئے گا وقت لگے گا سہنے میں بر بادی کو اک نہ اک دن پچھتاوا کھا جائے گا سب نے پیچھے چھوڑ دیا ہے ساتھی کو دور کہیں شہروں میں نہریں کھودی ہیں تب جا کر گھر لائے ہیں سیرابی کو خوف نے سب آنکھیں بے حس کر ڈالی تھیں جج نے آخر چھوڑ دیا اپھرادی کو شام…

Read More