صائمہ اسحاق ۔۔۔ چپکے چپکے جھانک رہا تھا دروازہ

چپکے چپکے جھانک رہا تھا دروازہ
دیواروں کو ہانک رہا تھا دروازہ

مجھ کو رستہ دینے کی سرمستی میں
خود پر تارے ٹانک رہا تھا دروازہ

تم آئے تو دیپ جلے ہیں چوکھٹ پر
ورنہ مٹی پھانک رہا تھا دروازہ

ٹاٹ میں مخمل کا پیوند نہ لگ جائے
گھر کی قیمت ٹانک رہا تھا دروازہ

داغ لگے جب انگنائی کی چادر پر
گھر کی لجّاڈھانک رہا تھا دروازہ

Related posts

Leave a Comment