شاعر علی شاعر ۔۔۔ اظہارِ ذات کی شاعرہ :صائمہ اسحاق

اظہارِ ذات کی شاعرہ…صائمہؔ اسحاق یہ حقیقت ہے کہ ہر شاعر اپنے مطالعے کی بنیاد پر اپنے شعری سفرکو آگے بڑھاتا ہے۔ اِس سفر میں جو اُسے تلخ و شیریں تجربات اور عمیق مشاہدات ہوتے ہیں وہ اپنی شاعری کا حصہ بناتا ہے۔ یہ شاعر پر منحصر ہے کہ وہ کس فن کاری، چابک دستی اور ہنرمندی سے کارِ شاعری کو انجام دیتا ہے۔ صائمہ اسحاق ایک وسیع المطالعہ شخصیت ہیں۔ ہر شاعر اپنے مستند پیش روئوں سے کسی نہ کسی سطح ُپر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلاف…

Read More

صائمہ اسحاق ۔۔۔ چپکے چپکے جھانک رہا تھا دروازہ

چپکے چپکے جھانک رہا تھا دروازہ دیواروں کو ہانک رہا تھا دروازہ مجھ کو رستہ دینے کی سرمستی میں خود پر تارے ٹانک رہا تھا دروازہ تم آئے تو دیپ جلے ہیں چوکھٹ پر ورنہ مٹی پھانک رہا تھا دروازہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند نہ لگ جائے گھر کی قیمت ٹانک رہا تھا دروازہ داغ لگے جب انگنائی کی چادر پر گھر کی لجّاڈھانک رہا تھا دروازہ

Read More

صائمہ اسحاق ۔۔۔ بند بنا کر روک دیا ہے باغی کو

بند بنا کر روک دیا ہے باغی کو سرکش ہوتی خواہش کی آزادی کو محرم ہونے والا پیڑ سمجھتا ہے بات کی تلخی کھاتی ہے شادابی کو رفتہ رفتہ سب معمول پہ آئے گا وقت لگے گا سہنے میں بر بادی کو اک نہ اک دن پچھتاوا کھا جائے گا سب نے پیچھے چھوڑ دیا ہے ساتھی کو دور کہیں شہروں میں نہریں کھودی ہیں تب جا کر گھر لائے ہیں سیرابی کو خوف نے سب آنکھیں بے حس کر ڈالی تھیں جج نے آخر چھوڑ دیا اپھرادی کو شام…

Read More