محسن اعظم محسن ملیح آبادی۔۔۔فخر الدین بلے: امید و رجا کے صاحبِ طرز شاعر اور دیدہ ور ادیب

سیدفخرالدین بلے: امید و رجا کے صاحب ِ طرزشاعراور دیدہ ور ادیب

کتنی ہی ایسی شخصیات گزری ہیں، جن کی شہادت تو اریخِ علم وادب کی زبان پر ہیں۔ جو نادر صفات سے ُمتصفِ تھیں۔ ماضی بعید ہو یا ماضی قریب ان ہستیوں نے ہر دور میں اپنے جامع کمالات ہونے کے نقوش ونشانات مختلف صورتوں میں چھوڑے ہیں ۔جن کا اعتراف تمام اساطینِ علم وفنون نے کشادہ دلی سے کیاہے۔ ایسی ہی ایک نابغہء روزگار شخصیت ماضی قریب میں تھی ، جو اپنی دانشورانہ عبقریت اور طباعی اہل علم وشعور میں مشہورتھی۔ جس کا اعتراف متبحر صاحبان ِعلم وفنون اور ادب وصحافت کی زعیم ہستیوں نے کیا ہے ۔ انکا سلسلہء نسب ولی الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری ثم اجمیری سے ہوتا ہوا حضر ت علی کرم اللہ وجہہ و رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے43 واسطوں سے مل جاتا ہے۔ وہ فاطمی سادات تھے ۔وہ صوفیانہ فکروفلسفہ پر عبور رکھتے تھے ۔ اور ان پر عملاً خود بھی عامل رہے۔ انکی روشنی ءفکر ونظر ہر خاص وعام پر اثر انداز ہوتی رہی۔ وہ اپنی فیض رساں شخصیت کے اعتبار سے مندرجہ ذیل فارسی شعر کی معنویت کے مصداق رہے ۔

پر تو مہر بہ ویرانہ و آباد یکسیت
حسن، گر تنع کشد بندہ و آزاد یکسیت

ان کی ذات اور علم و فکر سے بقدرِ ظرف وعلمی وذہنی استعداد سبھی نے فیض حاصل کیا ۔ان کی فکری تموجات اور علمی جہات بہت سی ہیں، جن کا احاطہ کرنا اس اجمالی مقالے میں نہیں ہوسکتا۔ میں ان کا تعارف بحیثیت شاعر۔ انتقادی تناظر میں کراءوں گا۔ ان کی ریاضتِ شعری، شاعرانہ عظمت اور قادر الکلامی پر تفصیلاً بات کروںگا۔ دیگر خصوصیات بطور اجمال بیان ہونگی۔ وہ بیسویں صدی کے معتبر شعراء کی صف کے سخنور تھے۔ شاعری میں انکا اعتراف علم وادب کے ثقہ ومستند اساطین وزعما نے کیا ہے۔ مثلاً شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی ، فراق گورکھپوری ، جیسے نابغہ روزگار ان کے کمال شاعری کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں جو ہیں تو بہت مختصر مگروہ صفتِ ”ماقل ودل“ کے حامل ہیں۔ حضرت جوش ملیح آبادی فرماتے ہیں”سید فخر الدین بلے کے کلام میں دریا کی روانی اور جذبوں کی فراوانی ہے۔ تاریخ، ادب اور تصوف کا وسیع مطالعہ ان کے کلام میں بولتا ہوا، اور سوچ کے درکھولتا ہوا دکھائی دیتا ہے”۔ فراق گھورکھپوری جو کلاسیکل اور جدید غزل کے صاحب ِ طرز شاعر ہیں ،ارشاد فرماتے ہیں”سید فخر الدین بلے رنگوں کی بجائے الفاظ سے تصویریں بنانے کا ہنر جانتے ہیں”۔ ان اساطین کے مختصر اظہار کی روشنی میں ، انتقادی کسوٹی پر ان کی شاعری کا سوناکھرا ہے۔ وہ عروضی فنی امور میں محتاط نظر آتے ہیں۔ بہت کم کہیں کوئی سقم دکھائی دیتا ہے اور ایسے سقم تو اردو کے بڑے شاعروں کے یہاں بھی موجود ہیں۔ ان سے فخر الدین بلے صاحب کی شاعری کا مقام ومرتبہ کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کے سرمایہ شاعری میں جو اس وقت میرے سامنے ہے۔اس میں محاسن و روائع زیادہ ہیں۔ خوبیوں کی بھی افراط انہیں متحرک اور زندگی سے جڑا ہوا شاعر دکھاتی ہے۔ ان کے شاعری کلاسیکل اور جدید کا بہترین مربع التاثیر آمیزہ ہے۔ سب سے بڑی خوبی ان کے کلام کی یہ ہے کہ قنوطیت وجمود سے مبرا ہے۔ وہ امید و رجا کے بیدار دماع شاعر ہیں۔ ان کا شاعرانہ لہجہ تقلیدی نہیں، خود آفریدہ ہے۔ ان کے اسلوب بیان میں تازہ کاری ہے، شائستگی اور شگفتگی ان کی شاعری کا جوہر ِخاص ہے۔ فصاحت کے ساتھ طلاقتِ لسانی ، شوکتِ خیال اور خوبصورت الفاظ کے دروبست کے وہ ماہر شعری صورت گر ہیں۔ ان کے شعری کینوس پر ان کا فیصلہ کن مشاہدہ پھیلا ہوا ہے۔ ان کے احساسات کا دائرہ اپنے اندر بہت سے جذباتی فکری نفسیاتی بوقلمونیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ ان کی شاعری ہر اعتبار سے اظہار کے مضبوط ستونوں پر ٹھہری ہوئی ہے۔ انتقادی تناظر میں یہی وہ خوبیاں ہیں، جو کسی شاعر کو منفرد ونادر صورت میں سامنے لاتی ہیں۔ اور اس کو آفاقی ادب میں بلند مقام دینے پر اصرار کرتی ہیں۔ میں نے موصوف کا وہ شعری سرمایہ بالاستیعاب پڑھا ہے، جو مجھے دستیاب ہوا ۔ وہ انتقادی تناظر کے ساتھ میری استحسانی وتاثراتی روشنی میں ایک ماہر شعری صورت گر ٹھہرے ہیں۔ وہ ان شعراءکی صف کے شاعر ہیں ۔جو اپنے کلام کے بل پر زندہ رہنے والے ہیں۔ ان کے کلام کے جسم میں جو حرکت عزیزی موجود ہے، وہ بڑی توانا ہے۔
میں نے مندرجہ بالاسطور میں جو بیان کیا ہے۔ اس کی شہادت ان کے مندرجہ ذیل اشعار خود ہی دینگے۔ شعری ذوق رکھنے والوں میں اعلیٰ سخن فہم، اورسلیم الحواس قاری کو ان کی عظمت شاعرانہ کے اعتراف میں اپنا سر تسلیم خم کرنا ہی پڑے گا۔ میں فخر الدین بلے کو اپنے انتقادی تناظر میں ایک ہنرمند اور ممتاز شاعر کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ آیئے ان کے شعری صنم خانے میں چند تغزل کے صنم دیکھتے ہیں، جو فکری طورپر کلاسیکل ہیں اوربیان کے لحاظ سے نیم جدید ہیں۔ ان کی رومانی غزلوں کی بنیاد روایت ہی پر قائم ہے اورسچ بات بھی یہی ہے۔ غزل روایت سے ہٹ کر روح غزل سے خالی ہوجاتی ہے۔ وہ غزل کے مزاج شناس تھے۔ جہاں تغزل ہے، اس میں غزل کے تمام ضروری لوازمات ملتے ہیں۔ وہ محاکاتی غزل بھی سلیقے سے کہنے والے شاعر ہیں۔ ان کی غزل میں شائستگی بدرجة اتم موجود ہے۔ وہ پرانی بات کو نیا بناکرپیش کرنے میں ماہر تھے۔ شاعری کا یہی ہنر کسی شاعر کو اعتبار بخشتا ہے۔ اشعارملاحظہ فرمائیے ۔

ہیں مجھ کو پسند آپ کی بکھری ہوئی زلفیں
بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا نہ کریں آپ

میں جانتا ہوں مگر تو بھی آئینہ لے کر
مجھے بتا کہ مرا انتخاب کیسا ہے؟

منقولہ بالا شعر محاکاتی ہیں اور منظرکشی کی خوبی سے بھی مزین ہیں۔ الفاظ کے ذریعے بکھری ہوئی زلفوں اور انہیں سنوارنے کا خیال کس قدر سادگی سے مصورکردیا ہے۔ بکھری زلفیں ہماری اردو شاعری میں حسین استعارہ ہے۔ اس سے ہم محبوب کی کھلی ہوئی زلفوں کے علاوہ بھی کئی مفہوم لے لیتے ہیں۔ اسی طرح سنورے گیسو بھی بطور استعارہ کئی معنی میں لئے جاتے ہیں ۔دوسرے شعر کا انداز بیان کس قدر شاعرانہ ہے یعنی “میں جانتا ہوں، مگر تو بھی آئینہ لے کرز”دونوں جملے بے حد پرمعنی ہیں اور پھر یہ کہنا “مجھے بتا ! کہ مرا انتخاب کیسا ہے” شعریت سے بھرا ہواشعر ہے، اور شاعر کے سلیقہ بیان کے حسن کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک بات مختلف ڈھنگ سے کہی جا سکتی ہے، مگر وہی طرز ادا استحسانی خوبی رکھتا ہےِ جس میں بیان کرنے کا طریقہ عام روش سے ہٹ کر ہو۔
ایک شعر اورغزل کا دیکھئے، سادہ انداز بیان ہے مگر حسن ادا نے سادہ پن میں بناﺅ سمیٹ دیا ہے ۔ شعر کی یہی خوبصورتی اس کے خالق یعنی شاعر کے ہنر شعرگوئی کی واضح شہادت ہے ۔

کیا چاہتا تھا اور یہ کیا دے گیا مجھے
قاتل بھی زندگی کی دعا دے گیا مجھے

محولہ بالا شعرتغزل سے ہٹ کر دیکھئے اور مفہوم بھی دے رہا ہے۔ شعر ذومعنی ہے۔ قاتل ایک استعارہ ہے مقتول کا لفظ لائے بغیر بھی مقتول کا تصور ذہن پر مرتسم ہوجاتا ہے۔”کیا چاہتا تھا “کا ٹکڑا سب سے زیادہ پرمعنی ہے۔ پھر زندگی کی دعا دے گیا، غضب کا جملہ ہے۔ کہنے کو شعرسادہ معلوم ہو رہا ہے مگرسادگی، رنگینی بیان کے ساتھ علو ے فکرکا تصور بھی دے رہی ہے ۔ان کی شاعرانہ خوبی سے متاثر ہوکر ہی مشہورشاعر جگن ناتھ آزاد نے کہاتھا “سید فخرالدین کی خوبصورت شعری تخلیقات پڑھنے یا سنننے کے بعد برسوں تک ان کے سحرسے آزاد ہونا مشکل ہے”۔ سید فخر الدین بلے صاحب اترپردیش (یوپی) بھارت کے تاریخی شہر میرٹھ کے مشہور قصبہ “ہاپوڑ”میں پیدا ہوئے۔ہاپوڑ کا ضلع میرٹھ ہے َجہاں بڑے بڑے شاعروں نے جنم لیا۔ مثلاً اسماعیل میرٹھی، بیان یزدانی میرٹھی، خواجہ اکبر وارثی، ماہرالقادری میرٹھی، ندرت میرٹھی، سید فخرالدین بلے ہاپوڑی بھی ہیں اور میرٹھی بھی۔ مذکورہ شعراءکی طرح بڑے شاعر تھے۔ اس مردم خیز ضلع اور قصبے سے کون واقف نہیں۔ بابائے اردو جیسی عظیم شخصیت ہاپوڑ کی تھی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو زبان کے لازوال محسنوں میں سے ہیں۔ اردو میں ان کا تحقیقی کام قابل قدر نوعیت کا ہے۔
جناب سیدفخر الدین بلے کی عظمت شاعرانہ اور ان کے تغزل کا ذکر تھا ۔برسبیل تذکرہ مشاہیر میرٹھ کو بھی شامل کرلیاگیا ۔جناب بلے کی غزل کا مندرجہ ذیل شعر سادہ بیانی کے ساتھ قلبی کیفیت کا آئینہ ہے۔ اسے ا نفراد ی واجتماعی تناظر میں دیکھئے۔ اس میں تصورِ ذوجہتی ہے ۔ملاحظہ کیجئے ۔

کسی نے توڑ دیا ، دل کو دل لگی کے لیے
کوئی تڑپتا رہا عمر بھی کسی کے لئے

محولہ بالا شعر سبھی کے دل کا ترجمان ہے اور فطری جذبے سے مزین ہے۔ اسے انسانی زندگی سے الگ نہیں کرسکتے ۔حیات انسانی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ معاشرتی عمل کا ایک حصہ ہے۔ غزل میں زندگی کی مختلف کیفیات ہی کو بیان کیا جاتا ہے۔ محبوب ومحب ہی کے احساس سے مصور بات ہی غزل نہیں ہوتی۔ اس میں پھیلاو کو دیکھنا چاہئے۔ جسے شاعر موصوف نے سہل انداز میں روانی کے ساتھ نظم کردیا ہے۔
ایک شعر اور دیکھئے۔ جس میں جناب بلے ،محبت کو کسی مصلحت اور نفع نقصان سے بلند تر جانتے ہیں۔ ان کی بات میں وزن ہے، حقیقت ہے، پیار محبت ماورائے ہارجیت ہے ۔

ہے پیارکا کھیل مصلحت اور خیالِ سودوزیاںسے بالا
لگاہی لی ہے جو دل کی بازی، توجیت کیا اور ہار کیا ہے

محولہ بالا شعر اپنی شعری بنت میں ہر اعتبار سے آسان اور سریع الفہم ہے۔ ان کے اشعار تحلیل وتوضیح شعری کے محتاج نہیں۔ یہ خوبی ان کی شاعرانہ مہارت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کی غزلوں کے اکثر اشعار دل ودماغ کو ایک ساتھ اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ان کے شعرو ںمیں زیادہ اشعار مطبوع (آمد) کی خوبی رکھتے ہیں۔ مصنوع (آورد) اشعارکی تعداد کم ہے۔ ان کا یہ شعر شعرائے ملتان سے میں نے بارہا سنا ہے۔ آپ بھی پڑھئے ۔یہ شعر جمیل الدین عالی صاحب نے بھی اپنے مضمون” نقارخانے میں ” مطبوع اخبار جنگ میں لکھا ہے

پینے والے تو ہمہ وقت پیا کرتے ہیں
رندِ بدمست کو پابندی اوقات سے کیا

صہبااختر مرحوم بڑے پائے کے شاعر تھے۔ اسلوب وبیان میں شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کے پیرو تھے۔ ان کی غزلیات اور منظومات کا آہنگ نہایت بلند تھا۔ بڑے گھن گرج کے سخنور تھے۔ ایک مرتبہ ملتان کے کسی مشاعرے میں شرکت کی غرض سے گئے، وہاں جس ہستی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، وہ ذات گرامی اردو، فارسی، انگریزی اور ہندی زبان پرکامل عبور کی حامل سید فخر الدین بلے کی تھی۔ صبہا اختر صاحب نے ان کے بہت سے اشعار سنائے اور فلسفہ تصوف ومعرفت پر ان کی گہری علمیت کا ذکرکیا۔ انہیں ایک متجر عالم اوربلند افکار کا شاعرکہا ۔صہباصاحب نے بتایا وہ تصور وحدت الوجود یعنی “ہمہ اوست”کے قائل ہیں۔ اور سلسلئہ چشتیہ سے منسلک ہیں۔ صہبااختر نے کہاتھا وہ حیات وکائنات کے حساس مطالعہ ومشاہدہ کے صوفی منش انسان ہیں۔ سید فخرالدین بلے کے جو اشعار میری نظر سے گزرے ہیں، وہ دائرہ حیات وکائنات اور فلسفئہ معرفت وتصوف سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا شاعرانہ آہنگ کیسا ہے۔ بہ اعتبار طرز بیان ان میں جو اختصاص شعری چھپا ہوا ہے۔ اس کی اہمیت آفاقی شاعری میں کیا ہے۔ زبان پر دسترس کتنی ہے۔ حسن ادا میں ندرت کا معیار کیا ہے۔ ان سے ایک بلند سخن فہمی کا حامل قاری ان کے مرتبئہ شاعرانہ کا اندازہ لگاسکتا ہے۔ میرے انتقادی اور تاثراتی تناظر میں انکی شاعری کی فضا نہایت صاف اور روح پرور ہے۔ کسی تخلیق کا سب سے بڑا نقاداور محاکمہ کرنے والا بیدار دماغ اور حساس قلب قاری بھی ہوتا ہے۔ جو اشعار کے صوری ومعنوی جمال، اورفکری بوقلمونی کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ سونے میں کھرے کھوٹے کی مقدار کا تعین صرف نقد نگار ہی نہیں کرتا، صاحب ذوق قاری بھی کرلیتا ہے ۔ بحیثیت ایک نقاد میری نظر میں تو سید فخر الدین بلے صاحب کی غزلیں اور نظمیں بڑی جان دار اور سریع الاثر ہیں۔ ان کی شاعری حیات وکائنات کی بہترین عکاسی کی حامل ہے۔ آیئے ان کے شعری آئینہ خانے میں دیکھتے ہیں ۔کیسے کیسے آئینے ہیں۔ کون سا آئینہ پورا چہرہ دکھاتا ہے اور کون سا آئینہ ادھورا چہرہ پیش کرتاہے۔ ان کے شعروں کی نرملتایعنی شفافیت اورکوملتا اور تازگی ولطافت کس درجے پر ہے۔ شاعری آسان ہنر نہیں، بڑی ریاضت اور مہارت کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کیلئے مندرجہ ذیل اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔

کھڑا ہوں جادہ ءحیرت پہ آج بھی تنہا
کبھی تو کوئی مسافر ادھر سے گزرے گا

ہے فلسفوں کی گرد نگاہوں کے سامنے
ایسے میں خاک، سوچ کو رستہ دکھائی دے

دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے، کہ اونچا دکھائی دے

مندرجہ بالا اشعار مختلف النوع خیال کے ہیں مگر ان میں شعری حسن کہیں ماند نظر نہیں آتا۔ نہ ثقل بیان ہے نہ تعقیدِ لفظیِ ومعنوی ۔ نہ غرابت لفظیات، عام فہم الفاظ کے چناو کے ساتھ خیالات کی شعری صورت گری کی گئی ہے۔بہ لحاظ فکروخیال اور بہ اعتبار ِاسلوبِ بیان قاری کو مایوس نہیں کرتے ۔اسی تناظر میں اور اشعار سے بھی احتظاظ واستلذاذِ ذہنی وقلبی حاصل کیجئے اور اپنے ذوق شعری کی کسوٹی پر کسیے ۔

آگ پانی میں ہے کیا فرق کہ ہم سب کے بدن
کبھی بارش میں، کبھی دھوپ میں نم ہوتے ہیں

میں تو لے آیا ہوں ایمان فرشتوں پہ،مگر
ان کا کیا ہوگا بھلا مجھ سے جو کم بھولے ہیں

انا کا علم ضروری ہے بندگی کے لئے
خود آگہی کی ضرورت ہے بے خودی کے لئے

بلے صاحب نے جس انا کا ذکر کیا ہے، وہ کسی طرح بھی انائے منفی نہیں بلکہ انائے مثبت ہے، اور اس سے بلے صاحب نے لفظ کے معنی حقیقی کی بجائے مجازی مفہوم تراشا ہے اوروہ مفہوم خود شناسی وخود آگاہی کا ہے۔ جب کوئی شاعر اس منطقئہ سخن پر پہنچ جاتا ہے ۔ جہاں بعض لفظیات کے حقیقی ومجازی مفہوم اس کے مطیع ہوجاتے ہیں اور معنی حقیقی کے بجائے انکے مجازی معنی استنباط کرلیتا ہے۔ جس طرح علامہ اقبال نے خودی کے حقیقی معنی کے بجائے اپنے لئے بطورمجاز ، غیر حقیقی مفہوم لے لیا ہے۔ جسے قبول عام بھی حاصل ہوگیا ہے۔ اب خودی کا لفظ پرانے مفہوم میں نہیں لیا جاتا بلکہ علامہ اقبال کے تراشے ہوئے معنی میں بولاجاتا ہے۔۔ علامہ اقبال کا شعر ہے:

خودی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

مرزا غالب اور جوش ملیح آبادی نے بھی کئی جگہ اصل معنی کے بجائے اپنے مجازی معنی کو شعر میں سمویا ہے۔سید فخر الدین بلے صاحب زیرک وطباع انسان تھے۔ وہ بھی انا کے اصلی مفہوم کے بجائے غیر حقیقی یعنی مجازی معنی مذکورہ شعر میں لائے ہیں۔ اگر اصلی معنی میں لفظ انا لیا جائیگا تو شعرکا مفہوم ہی تلپٹ ہوجائیگا۔ اصلی مفہوم ہی انا بندگی کی ضد ہے۔ بلے صاحب نے تجربہ کیا ہے اور انائے مثبت سے مراد لی ہے۔ مذکورہ شعر اپنے مفہوم میں بڑا بلند ہے۔
بلے صاحب کی شاعری انسان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ دراصل کونین میں صرف انسان ہی ایک ایسامرکز ومحور ہے ۔جس کے بغیر نظام ہستی بے جان ہے۔ انسانی زندگی کے چاک پر کائنات گھوم رہی ہے۔ اس حقیقت سے بلے صاحب کماحقہ واقف ہیں۔ اسی تناظر میں مندرجہ ذیل شعر تخلیق کیا ہے۔ جو یک تلمیحی انداز بھی رکھتا ہے، اور اہم واقعے کو بیان کرتا ہے۔ وہ شعر یہ ہے۔

وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے
خود اپنے رب سے فرشتوں نے اختلاف کیا

محولہ بالاشعر کی زمین کے چند شعر قارئین کی ضیافت طبع کیلئے حاضر ہیں۔۔۔دیکھئے

خدا سے روز ازل کس نے اختلاف کیا
وہ آدمی تو نہ تھا جس نے انحراف کیا

ازل سے عالمِ موجود تک سفر کرکے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا

خداگواہ ، کہ میں نے خود آگہی کے لئے
سمجھ کے خود کو حرم، عمر بھر طواف کیا

رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل
جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا

میں کیا بتاوں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری
کرن نے قطرئہ شبنم میں جب شگاف کیا

مندرجہ بالا اشعار بطوراستحسان اور تاثیر کے تو بلند ہیں ہی، ان میں شعریت بھی ہے، شعری محاسن سے بھی مزین ہیں مگر انتقادی روشنی میں بھی اعلیٰ اور معیاری ہیں۔ سید فخر الدین بلے صاحب شعر کہنے میں انتقادی نگا ہ کُھلی رکھنے والے شعراءمیں سے تھے۔ جتنا کلام انکا میری نظر سے گزرا، اس میںعروضی وفنی اغلاط نہیں ہیں۔ وہ زبان کی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔
وہ فکرونظر کے سلیقہ مند شاعر تھے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ وہ انسان اور اس سے تعلق رکھنے والے افکار وخیالات، جذبات اور مشاہدات کے بڑے چابک دست صورت گرتھے۔ ان کی شاعری میں فکر انگیزی ہے۔ خالص تغزل کے علاوہ تصوف، اور فلسفہ وحکمت میں رنگے ہوئے شعر بھی کہے ہیں۔ ان کے یہاں معاشرہ وعمل پر مشتمل شعر بھی کافی ہیں ۔طنز لطیف بھی ان کے یہاں موجود ہے۔ اچھی شاعری وہی ہے، جو مقصدی بھی ہو۔ انسان کی سوچ اور توجہ کو بیدار کرنے والی شاعری کے وہ خالق رہے۔ ان کے یہاں زندگی کے بہت سے رخ اور جہات ہیں۔ وہ ادب برائے زندگی کے شاعر رہے۔ یہی انکی وہ خوبیاں ہیں، جو انہیں اپنے معاصرین میں بلند شاعرانہ مقام عطا کرتی ہیں۔ اور ان تاثرات کی شہادت خود ان کا سرمایہ سخن دے رہا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔

پیش آئی ہے نمی آج جو پیشانی پر
آئینہ دیکھئے تحریرِ ندامت ہوگی

دائرے بنتے بگڑتے دیکھنے والوں نے بھی
کب سنا ہے جھیل میں گرتے ہوئے کنکر کا شور

اپنی کتابِ زیست پہ تنقید کے لئے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاوں گا

اٹھائے پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ زمیں مجھ پہ کربلا کی طرح

ہے رِدا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے
ورنہ خلوت میں بدلنے کو بھی ہیں چولے کئی

مندرجہ بالااشعار بغیر کسی توضیح وتحلیل کے سمجھ میں آجانے والے ہیں۔ ان میں جو افکار پیش کئے گئے ہیں ،ان میں زندگی اور عمل کے وہ چہرے منعکس کئے گئے ہیں، جو ادھوے نہیں ،مکمل ہیں۔ ہر چہرہ اپنا وجود بھی ظاہر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پیشانی کی نمی تحریرِ ندامت ہوتی ہے اور وہ آئینہ دیکھنے پر نظرآتی ہے۔ آئینہ ہی اس شعر کی وہ علامت ہے، جو ندامت پر مائل کرتی ہے۔جھیل میں بنتے بگڑتے دائرے دیکھنے والے کنکرگرنے کا شور کب سنتے ہیں۔ اس شعر میں ”دائرے“ اور کنکر کا شور اہم لفظ ہیں اور ذہن کو کسی حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں ۔ کتاب حیات پر تنقید کے لئے چند سادہ ورق چھوڑ جاوں گا ،انسان کی پوری زندگی کو دکھادیا ہے اور زمانے کو غور کرنے کا پیغام ہے۔ تن کے نیزے پر سر اٹھا ئے پھرنا اور زمین کا تنگ ہو جانا کربلا کی طرح، کیسے خوبصورت انداز و علامات کے ساتھ بات کہہ دی ہے۔ ردا پوشی دنیادکھاوے کیلئے ہوتی ہے ،ورنہ تنہائی میں انسان کئی چولے بدلتا ہے!دیکھئے ظاہر و باطن کی عکاسی کس طرح کی ہے۔ بلے صاحب نے بڑی سی بڑی بات آسان علامتوں اور لفظیات کے انتخاب کے ساتھ کہہ دی ہے، اسی کا نام شاعری ہے۔ نثر کے موزوں ٹکڑوں میں نظم کی اثرانگیزی بھر دینا ہی شاعری ہے۔ بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جو خبر کو انشا بناناجانتا ہو۔ یہ ہنر بلے صاحب خوب جانتے تھے۔ جس نے ان کے کلام میں اثر پذیری بھر دی ہے۔ فکروخیال کو بولتا ہوادکھا دیا ہے۔ دلوں کی دھڑکنیں لفظوں میں سمودینا ہی تو شاعری ہے۔
سید فخرالدین بلے کو ربِ الفاظ ومعانی اور ناطقہ بخشنے والے نے یہ ہنر عطا فرمادیا تھا۔ وہ جس بات کو سوچتے تھے، اسے اپنے شعری کینوس میں مصور کردیتے تھے۔ ان کے متحبرِ علمی وفکری اور ذہانت کا اعتراف ان کے عہد کے ہربڑے صاحبِ علم وفضل نے کیا ہے۔ جس کا ذکر مشہورادیب وشاعر اور دانشور جمیل الدین عالی نے کیا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت اور مولفانہ ومصنفانہ شان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ محسن اردو مولوی عبدالحق نے انکے متعلق جوچند الفاظ کہے ہیں، ان سے ان کی نثر نگاری اور شاعری منفرد ومعتبرٹھہرتی ہے۔ بابائے اردو جن کو میں محسن اردو کہتا ہوں، انہوں نے جو الفاظ کہے وہ یہ ہیں ”سیدفخرالدین بلے کی نظم ہویا نثر، اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے“۔ بابائے اردوکے یہ الفاظ ان کیلئے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔
میں نے ابھی جناب بلے کی شاعری کے صنم خانے کی نظارگی کا سلسلہ ختم نہیں کیا ہے۔آپ میرے ساتھ رہئے اور انکے اصنامِ شعری کا دیدار فرمایئے۔

اتنا بڑھا بشر، کہ ستارے ہیں گردِ راہ
اتنا گھٹا، کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا

ہنگامہ ہائے کارگہِ روز و شب نہ پوچھ
اتنا ہجوم تھا ، کہ میں تنہا سا رہ گیا

نہ آئینے کا بھروسا نہ اِعتبارِ نظر
جو روبرو ہے مرِے کوئی دوسرا ہی نہ ہو

مہر بہ لب ہیں گاوں کے گیانی، شہر کے دانشور
بچے سوکھے پیڑوں کی تصویر بناتے ہیں

یہی ہے گردشِ لیل و نہار کی تعبیر
کسی کا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا

مندرجہ بالا اشعار میں جدید ونیم جدید اسلوب بیان کے شعر بھی ہیں مگر ان میں جو فکر ہے، وہ موثر وکارآمد ہے۔ کوئی شعر فکری اعتبار سے کمزور نہیں۔ ان میں جوعلامات آگئی ہیں،انہوں نے مفہوم کو خوبصورت بنادیا ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی اورجدید رنگ کی بو قلمونیاں نہایت سلیقہ شاعرانہ کے ساتھ ہیں ۔وہ جدید اسلوب اور جدید فکر کے تو قائل تھے، مگر ایسی جدیدیت کو انہوں نے کبھی منہ نہیں لگایا۔ جو بے ہنگم ہو۔ وہ ہر نئی بات کو اس صورت میں قبول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس میں حسن ہو، ابہام واہمال کی بھول بھلیوں میں نہ پھنسی ہوئی ہو اور لفظیات خیالات کی روح کے مطابق ہوں۔ جدید رنگ اور اسلوب نے جہاں اردو شاعری کی زینت میں اضافہ کیا ہے، وہیں اس کے بے جا استعمال نے خوبصورتی کو داغدار بھی بنادیا ہے ۔جناب بلے صاحب کی شاعری غزلیات کی ہویا منظومات کی، وہ جدید انداز فکر اور طرز اظہار میں توازن واعتدال کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا، جدید انداز فکرونظر اور اسلوب بیان کے بہت بڑے پاسبان تھے۔ جدید شعری ادب میں انہیں ایک بلند مقام ہے۔ انکی آراءجو شعر وادب کے حوالے سے ہوتی ہیں ،ان کو اعتبار حاصل ہے۔ ایسے جید شاعر سید فخر الدین بلے صاحب کے متعلق فرماتے ہیں۔”ادب کےلئے بلے صاحب کی لگن اور لگاو مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرت نے انہیں اعلیٰ ذوق نظر ہی عطا نہیں کیا، دل کی بات کو لفظوں میں ڈھالنے کا گر بھی سکھایا ہے۔ ان کی نثر اتنی پختہ اور نین نقش کی اتنی صحیح اور لفظوں کے انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت مزا ج ہے کہ کسی فقرے پر تو کجاان کے استعمال کردہ کسی لفظ پرانگلی رکھنا مشکل ہے۔ اس پرمستزاد ان کا وسیع مطالعہ ہے”۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں وہ نظم ونثر دونوں پر عبور رکھتے تھے ،اس کا اعتراف ملک کے بڑے ناقدین، شعراء، نثرنگاروں اور صحافیوں نے کیا ہے۔سید فخرالدین بلے صاحب کے صنم خانہ سخن میں اور بھی خوبصورت شعری مجسمے ہیں۔ میں انہیں ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔

افق سے نکلا ہے سورج افق میں ڈوبے گا
جہاں بھی دھوپ ہے، سایہ ضرور پھیلے گا

رُتوں کی ریت یہی ہے، یہی ہوا کی روش
تپش بڑھے گی تو بادل ضرور برسے گا

چمن میں فصلِ بہاراں سہی، خزاں نہ سہی
مگر حضور یہ موسم ضرور بدلے گا

دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتہّ دیوار کون دیکھے گا

ہم شب میں رند بن کے رہے ، دن میں متقی
دنیا میں اس چلن سے بڑی آبرو رہی

ٹپکتی بوندوں سے ڈرتا ہوں جب سے دیکھا ہے
نشان ڈال دیئے بارشوں نے پتھر میں

مٹی اڑی تو اپنی حقیقت ہوئی عیاں
جھونکا ہوا کا میرا پتا دے گیا مجھے

میں کس سے پوچھوں کہ پھولوں نے کس لئے آخر
بسنت رُت کو ُچنا چاک دامنی کیلئے

وہ ایک شخص جو حالات کی پناہ میں ہے
یہ جان لے کہ ہر اکِ فرد کی نگاہ میں ہے

عجائبات کی دنیا میں کچھ کمی تو نہیں
یہ ہو بھی سکتا ہے مجھ سا کوئی ہوا ہی نہ ہو

محولہ بالا اشعار میں جن افکاروخیالات کو سمودیاگیا ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں کے موثر عکس ہیں۔ زندگی کے مشاہدات وجذبات کو شعریت کا رنگ دے کر دل آویز کیا ہے۔ شاعرموصوف کی بیان پر قدرت اور سلیقہ شاعرانہ کی گواہی دے رہے ہیں ۔ ان کی غرلوں کے اشعار محض موزوں ومرتب ہی نہیں ان میں فکر کی توانائی کے ساتھ شاعرانہ حُسن وجمال بھی ہے۔ یہ اشعار ایسی تصویریں ہیں، جو معاشرہ وعمل کو پوری طرح دکھا رہی ہیں اور قاری کو سوچنے پرمجبورکرتی ہیں ۔ا ن میں دل ودماغ کو کھینچنے کی خوبی بدرجہ اتم موجود ہے اور جناب بلے کی شاعرانہ مہارت کو بولتا ہوا محسوس کراتی ہیں،مندرجہ ذیل شعر بھی دیکھئے۔

پیڑ ، پودوں کی کچھ کمی تو نہیں
ایک سوکھا شجر نہیں، نہ سہی

سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی

ہم نے اے دوست ! خودکشی کے لئے
آستینوں میں سانپ پالے ہیں

یوں صاف بیانی کی جسارت نہیں ہوتی
ممکن ہے مری بات گوارا نہ کریں آپ

کر دیا دفن مجھے زیرِ زمیں یاروں نے
میں نے جب گردشِ دوراں سے نکلنا چاہا

شہر کے محتسب ہمیں بھی دکھا
ایسا دامن جو داغدار نہیں

محولہ بالا اشعار کو ذاتی پسندوناپسند سے ماورا ہوکر صرف انتقادی تناظر میں دیکھاجائے تو علاوہ خوبیوں کے نہ کوئی فنی سقم ہے نہ ژولیدگی بیان ہے نہ عروضی نقص ہے۔ ہر شعر صاف او ر کومل ہے۔ روانی وسلاست کی خوبی سے مزین ہے۔ جناب بلے کی شاعرانہ شخصیت پر جب غورکیاجائیگا۔ تو وہ آپ کوایک فطری شاعر کے روپ میں نظر آئیں گے۔ ایک فطری اورو ہبی شاعر کی یہ خصوصیت ہوتی ہے۔ وہ زندگی اور اس کے متعلقات کو بالکل حقیقی رنگ میں پیش کرتا ہے اور اندازِ بیان سے ایک معمولی اورسامنے کی بات کو بھی اس ڈھنگ سے کہتا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کو وہ بات بڑی اہم لگنے لگتی ہے۔ راقم الحروف نے شعری ادب کا جومطالعہ اب تک کیا ہے اور انتقادی تناظر میں جب دیکھا ہے تو شعرائے قدیم سے متاخرین تک افکار وخیالات اور جذبات کی یکسانیت ہے۔ ایک ہی بات کو قدیم شاعر ہو یا دور متوسط کا ہو یا آخر اور لمحہ موجود کا ہو، صرف اندازِ بیان کی ندرت اور لفظیات کے خوبصورت ہیرپھیر سے اس میں نیاپن دکھاتا ہے۔ اس ایک بات پر وہ علامات تازہ ونویں کی قوس قزح تان کر اسے خوبصورت بنادیتا ہے۔ انسان اگر غور کرے تو اس احساس ِجمال اور احساسِ جمال کے متعلقات جو ازل سے ایک ہیں اور ابد تک ایک رہیں گے۔ صرف سماجی رویئے اور افعال معاشرتی اقدار وکلچر میں کچھ فرق آتا ہے۔ ان میں کچھ بدلاءونظر آتا ہے۔ غم و خوشی ، کرب واذیت، خوف و بے خوفی کی جہات بدلتے ہیں۔ ان کے حدود گھٹتے یا بڑھتے ہیں ۔ جنہیں ہر دورکا شاعر اپنے انداز و ادا میں بیان کرتا ہے۔ مورخ اپنے ڈھنگ میں ان کا اظہار کرتا ہے ۔ مصور اسے اپنی مجازی فطرت یعنی تمدنی اثرات کے تحت دکھاتا ہے۔ باقی اورکوئی نئی بات نظر نہیں آتی۔ بس اسلوبیاتی منظر اور طریقے اور ان کی بوقلمونیاں ہمیں نئے ادب اور پرانے ادب میں فرق دکھاتی ہیں۔ بڑا شاعر ہونا او ر مقام شاعر اسی تناظر میں دیکھاجاتا ہے، جس نے لمحہ ءحاضر کے ادبی وعلمی اورفکری واسلوبی شعور کو توجہ کے ساتھ محسوس کرلیا او ر اپنی شاعرانہ ومتکلمانہ روح میں سمیٹ لیا، اسے اختصاص حاصل ہوگیا۔ غالب اپنے ہم عصروں پر غالب کیوں ہوا ۔اس کا سبب ہی یہی تھا کہ لمحاتی حقیقتوں کے ادراک سے اس کا شعری دماغ روشن ہوگیا تھا ۔وہ روشنی اس کی شاعری میں کم یا زیادہ در آئی اور وہ اپنے دور میں ممتاز ومنفرد شاعر کہلایا۔ حالانکہ مرزا غالب سے بڑے شاعر اس وقت موجود تھے، جن کی فکرونظر بھی غالب سے زیاد وسیع وپہناور تھی اور علم بھی زیادہ تھا۔ مگر وہ اس جیسی شہرت اور پذیرائی کیوں نہ حاصل کرسکے کہ وہ لمحہء موجود کا ادراک نہ کرپائے۔ وہ اپنے ماضی قریب اور امروز ہی کے منظر میں گم رہے۔ فردا کی طرف انکے قدم نہیں بڑھے۔ اس لئے قبول عام جیسا غالب کو حاصل ہوا اور آج بھی ہے۔ انہیں حاصل نہ ہوسکا ۔اس نے شاعری کو نئی جہات سے روشناس کرایا اور خود بھی اس پر گامزن ہوا۔ یہ مثال اس لئے دی گئی ہے کہ میں نے وہ روشنی جو غالب کو مل گئی تھی، اس کی کچھ تابندگی میں سید فخرالدین بلے صاحب کے کلام میں دیکھ رہا ہوں۔ بلے صاحب لمحاتی تقاضوں کو سمجھتے تھے۔ وہ ان شعرا میں سے نہیں تھے جو محض مقلدہوکر رہ جاتے ہیں۔ لکیر کے فقیر رہتے ہیں۔ اپنے دور کی شعری ضرورتوں ، لوازمات، علامات، افکار اور اسلوب پر توجہ نہیں دیتے۔ انہوں نے کلاسیکی شعری ادب کی اعلیٰ اوردوامی قدروں کے ساتھ زمانے کی بدلتی ہوئی شعری اقدار کو پیش نظر رکھا اور اپنی شاعری میں اسے سمودیا۔ جس نے ان کوآفاقی شاعری کی قدروں کے پا رکھ شعراءکی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔وہ اپنے ثقہ ومستند معاصرین کے شانے سے شانہ ملائے کھڑے ہیں۔ ان کے سرمایہ شاعری کے عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے متعلق ان کے عہد کے چوٹی کے ادباء، شعراء، ناقدین، صاحبانِ علم وفضل اور صوفیاء نے ان کی عظمت شاعرانہ ان کی ادیبانہ شان ان کی مولفانہ ومصنفانہ بڑائی اور صحافت وانشاپردازی کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ ان کے فن، شخصیت، شاعری ، تمثیل نگاری کے متعلق گراں قدر آراءکا اظہار کیا ہے۔ وہ آراءمندرجہ ذیل نذر قارئین ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کہتے ہیں “سیدفخرالدین بلے کی ذات میں جتنا تنوع تھا، اسی قدر رنگارنگی انکی نظم ونثر میں موجود تھی۔ ان کی گفتگو بھی مطالعہ اور تجربے کا امتزاج ہوتی ۔ ان سے ملنے والے خوش گوار شخصیت کا نقش دل پر لئے ہوئے ان سے رخصت ہوتے”۔
مشہور شخصیت میرزا ادیب فرماتے ہیں “ہرملاقات میں انکی شخصیت کا ایک نیا رخ میرے سامنے آیا۔ میں اس کثیر الجہت شخصیت کو پورے اعتمادکے ساتھ علم و ادب کی آبرو قرار دے سکتا ہوں”۔
پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی بڑے معتبر لہجے اور فکرونظرکے شاعروادیب تھے۔ وہ ایک مرتبہ کراچی تشریف لائے ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اولیاءکے شہر ملتان کے شعراءادباءصوفیا کا ذکر کیا اور ان سے فیض اٹھانے کا اقرار کیا۔ اسی دوران سید فخرالدین بلے صاحب کا ذکر بھی آگیا۔ ان کے متعلق عاصی کرنالی مرحوم کی جو رائے تھی وہ راقم الحروف اپنے الفاظ میں لکھ رہا ہے۔سیدفخرالدین بلے صاحب کاکیا کہنا، وہ عظیم وثقہ صفت انسان ہیں۔ وسیع المطالعہ شخصیت ہیں۔ وہ شاعر بھی اعلیٰ اور نثر نگار بھی پائے کے ہیں۔ بڑے باکمال انسان ہیں۔ انہیں علم وفکر کا خزانہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ان سے گفتگو کرکے علم وفضل کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔حضرت تابش دہلوی مرحوم زبان کے بڑے شعرا میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ایک خاص حلقہ شعر وادب توانہیں دورِ حاضر کا میر کہتا ہے۔ راقم الحروف کے شاگرد رشید ساجد علی ساجد کی قیام گاہ پر مشاعرہ تھا۔ اختتام مشاعرہ کے بعد کچھ بزرگ شعراءکا تذکرہ چھڑگیا۔ جناب تابش دہلوی نے اسد ملتانی ، حفیظ ہوشیارپوری اور سید فخرالدین بلے صاحب کا ذکرکیا۔ مذکورہ تینوں ہی شخصیات پہ انہوں نے بہت عمدہ رائے کا اظہار کیا۔ حضرت بلے صاحب کے متعلق جو رائے دی، اس کا خلاصہ میں اپنے الفاظ میں تحریرکر رہا ہوں۔
سیدفخرالدین بلے بہت پڑھے لکھے نستعلیق انسان ہیں۔ وہ نہایت زیرک صحافی، مضمون نگار اور اعلیٰ شاعر ہیں۔ صوفیانہ مذاق کے آدمی ہیں کھری بات کہنا انکا نصب العین رہا۔ وہ اپنے بزرگوں کا احترام کرنا جانتے ہیں۔ اہل علم ودانش میں ان کی رائے بڑی ہی صائب ہوتی ہے۔
بلے صاحب مرحوم علی گڑھ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے، تو ان کے ساتھ ان کے کمرہ نمبر پچاس میں جدید لہجے کے شاعر اور معتبر نقاد پروفیسر جناب انجم اعظمی مرحوم رہتے تھے۔کمرہ نمبر اکیاون میں مشہور روحانی پیشوا اور بہت ہی زیرک سیاستدان فنکشنل لیگ کے رہنما مردان علی شاہ عرف پیرپگارا قیام پذیر تھے۔
میرے ایک شاگرد منظر امکانی جب ملتان جاتے تو سید فخرالدین بلے صاحب سے ضرور ملتے تھے۔ ان کی عالمانہ شخصیت اور علم تصوف پر ان کی بے پناہ اہم معلومات کی تعریف کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے محی الدین ابن عربی کی ”فصوص الحکم“ اور ”فتوحات مکیہ“ کا بغائر مطالعہ کیا تھا۔غزلیں اور نظمیں بھی بہت اعلیٰ کہتے ہیں۔ ملتان کے اہل دانش ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ میں نے ان سے قیام ملتان کے دوران کئی غزلیات پر مشورہ ءسخن بھی کیا ۔جن غزلوں پر ان سے مشورہ ء سخن اور اصلاح لی تھی، وہ مجھے سنائیں۔
سیدفخر الدین بلے صاحب تصوف کے بڑے عالم تھے۔ فلسفہ تصوف پر جس انداز سے وہ سمجھتے اور سمجھاتے، بڑے بڑے صوفیا ءاس کے قائل تھے۔ پیر آف ہالہ شریف مخدوم طالب المولیٰ، مخدوم سجاد حسین قریشی، ڈاکٹر برہان الدین فاروقی، اور پیر حسام الدین راشدی ان کے گہرے علم تصوف کے دل سے قائل رہے۔ سید نصیر الدین آف گولڑہ شریف بھی ان کے علم وتصوف کی تعریف کرتے تھے۔ مشہور مستشرقہ این میری شمل صاحبہ بھی علم تصوف پر ان کی دسترس کی قائل تھیں اورانہیں اتھارٹی کہتی تھیں۔ مشہور دانش ور اور ڈرامہ نگار جناب اشفاق احمد تصوف ومعرفت میں انہیں مستندکہتے تھے۔ مشہور نقاد اور محقق ڈاکٹر عنوان چشتی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ۔
سیدفخرالدین بلے کے اندر نامعلوم جہان آباد ہیں، جو وقتاً فوقتاً انکے رویوں اور کرداروں میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ وہ خواجہ غریب نواز کی یادگار ہیں، اس لئے ان کی زندگی اور شاعری میں چشتیہ مسلک اور تصوف کا رنگ اوربھی کِھلتا ہے اور کُھلتا ہوا نظر آتا ہے۔
ادیب وشاعر پریشان خٹک نے سید فخرالدین بلے کے متعلق فرمایا ہے۔
سیدفخرالدین بلے ادب کی دیوقامت شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے ادب اور فنون کی دنیا میں جو کام کئے ہیں، وہ بہت سے اداروں کی مجموعی کارکردگی پر بھاری ہیں۔
محترم جمیل الدین عالی دنیائے شعر ادب میں ایک بڑا نام اردوشاعری کے علاوہ دوہے کی مفروضہ بحر سرسی چھند کو عام کرنے والے صاحب طرز دوہانگار ہیں۔ وہ اپنے کالم نقارخانے میں لکھتے ہیں۔
اسلام آباد میں کچھ ادب دوست جوش ملیح آبادی کے صاحبزادے خروش صاحب کے گھرجمع تھے۔ یہ ستر کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ چائے کے ساتھ شاعری کا دور بھی چلا ۔ فخرالدین بلے کی غزل کو حاصل محفل قراردیاگیا۔ میں چاہتا ہوں بلے صاحب کی غزلوں کے کچھ اشعار اور لکھوں۔ ان کی غزلوں میں بڑے خوبصورت شعر ہیں۔

ازل کے روز میں نکلاتھا ڈھونڈنے خود کو
ملا ہے آج مجھے آئینے کے پیکر میں

یوں لگی مجھ کو خُنک تاب، سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں

انساں ہی اس زمین پہ تنہا نہیں حریص
پھیلا ہوا ہے دیکھئے ہر برگ کا بھی ہاتھ

اگلی صف میں جو لوگ بیٹھے ہیں
تن کے اجلے ہیں من کے کالے ہیں

رنگِ صحنِ چمن اک معما سا ہے
روئی شبنم کلی کو ہنسی آگئی

یہ الگ بات لوگ بہرے ہیں
دل کبھی بے صدا نہیں ہوتا

مندرجہ بالااشعار میں عجیب عجیب رخ سے ان کی فکر نے دل ودماغ کو آوازدی ہے۔ اشعار سہل ممتنع کی خوبی کے حامل ہیں۔ جو شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہو۔ وہ بہت سے عکس دکھاتی ہے۔ یہ شعر کوئی فلسفہ وحکمت کے نہیں ہیں مگر زندگی کی بہت سی حقیقتوں کے آئینہ دار ضرور ہیں۔کوئی شعر ایسا نہیں ،جوبولتا ہوا محسوس نہ ہو۔ ان کی خاموشی گونگی ہے نہ غیرمتحرک۔ وہ جامد شاعری کے شاعر نہیں ۔ان کی غزلوں کے اشعار میں مشاہدہ ومطالعہ، جذبات واحساسات کاشاعرانہ جمال ہے۔ ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد دوسری بار پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ ان کی فکر میں دھندلاپن نہیں ہے۔ وہ صاف اور شفاف آئینے کی طرح ہے۔ مسائل جہات وکائنات طرفگی کے ساتھ ہیں۔ جس کا نام شاعری ہے۔ ان اشعار میں موجود ہے۔
فخرالدین بلے صاحب مشاعروں میں زیادہ شرکت نہیں کرتے تھے مگر شعر کہنے کا سلسلہ جاری رکھتے تھے۔ میرے سامنے ان کا ساراکلام موجود نہیں لیکن جوکچھ میری نظر سے گزرا ہے۔ ان کی شاعرانہ حیثیت کو میں نے انتقادی وتاثراتی روشنی میں دیکھا ہے۔ وہ مجھے ایک دلکش لہجے کے شاعر محسوس ہوئے۔ عروضی وفنی تناظر میں بھی وہی اشعار ہیں، جو قارئین کے ذوق شعری کے لئے لکھ رہا ہوں ،مندرجہ ذیل شعر بھی دیکھئے۔

پڑا ہوا ہے بہت سے چہروں پہ مستقل جو غبار کیا ہے
ذرا کبھی آئینوں سے پوچھو، نگاہ کا اعتبار کیا ہے

یہ زندگانی تو یوں لگے ہے، ہوکھیل کٹھ پتلیوں کا جیسے
ہے اور ہاتھوں میں ڈور ہی جب تو پھر مرا اختیار کیا ہے

شکستہ دل ہیں بہت سی کلیاں ،بدن دریدہ ہیں پھول سارے
ہیں خار زاروں میں قید آنکھیں، کہ جانتی ہیں بہار کیا ہے

پلے ہیں جو دل کی دھڑکنوں میں ، لہو ہے جن کی رگوں میں جاری
بھلا انہیں کوئی کیا بتائے، سکون کیا ہے قرار کیا ہے

زمیں کو گھیرے سمندروں اور ہوا کے طبقوں کا رقص پیہم
خلا میں یا رب ! یہ طرفگی ءحصار اندر حصار کیا ہے

وہ دیدہ ور ہے جو آبدیدہ ، مدام ہے جس کی مسکراہٹ
اسی سے پوچھو، کہ بار و کربِ لب تبسم شعار کیا ہے

ہے پیار کا کھیل مصلحت اور خیالِ سود و زباں سے بالا
لگا ہی لی ہے جو دل کی بازی تو جیت کیا اور ہار کیا ہے

مندرجہ بالا غزل بڑی بحر میں ہے۔ہر مصرع میں آٹھ رکن ہیں بڑی رواں اور سریلی بحر ہے ۔ہر شعر میں روانی ہے کہیں ٹھہراونہیں۔ کسی شعر میں اضافت کا بار نہیں۔ سادہ وشگفتہ زبان ہے۔ مختلف النوع افکار سے سجی ہوئی اور اس خوبی کی گواہ ہے کہ شاعر موصوف نے اپنی شاعرانہ ہنرمندی سے کہیں کوئی جھول نہیں آنے دیا۔ بیان پر انکی گرفت مضبوط ہے۔ پہلا شعراور دوسرا شعر زندگی کے دو رُخ دکھا رہا ہے۔ تیسر ے شعر میں شکستہ دل کلیاں، بدن دریدہ پھول، خارزاروں میں قید آنکھیں، جانتی ہیں بہار کیا ہے میں فکر کس خوبصورت اسلوب سے پیکرِ شعر میں ڈھل گئی ہے۔ ہر شعر میں شاعرانہ کاری گری ہے۔ بیان اور فکر دونوں دل ودماغ کو متاثر کر رہے ہیں۔ روانی تو غضب کی ہے۔ اس نے شعروں کو جان دار بنایا ہے۔ شعریت سے بھی خالی نہیں۔ مندرجہ ذیل غزل دیکھئے خیالات کوئی نئے نہیں مگر طرز اظہار نے جان ڈال دی ہے۔

خوشبو رہی چمن میں نہ وہ رنگ رہ گیا
تربت یہ گل کی، خار کا سرہنگ رہ گیا

ہولب پہ رام رام، بغل میں چھری رہے
جینے کا اس جہاں میں یہی ڈھنگ رہ گیا

ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر
انساں خلا میں پہنچا تو پاسنگ رہ گیا

گلہائے رنگ رنگ روش در روش ملے
دامن ہی آرزو کا مری تنگ رہ گیا

میں بھی بدل گیا ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ
آئینہ آج دیکھا تو خود ، دنگ رہ گیا

محولہ بالا پانچوں اشعار خوبصورت شاعرانہ انداز بیان سے مزین ہیں۔ نہ ثقل بیان ہے، نہ غرابت لفظیات، نہ اجلال نہ شکست ناروا، نہ تنافر، نہ تعقید، نہ تعقیب، ہر طرح خوبی کے حامل ہیں۔ صوری ہویامعنوی نگاہ نقد میں یہ بالکل کھرے ہیں۔ایک غزل بلے صاحب کی اور دیکھئے۔ میں ان کی جس شاعرانہ ریاضت اور مہارت شعرگوئی کا مسلسل ذکر کر رہا ہوں۔ اس کی گواہی خود ان کے اشعار دے رہے ہیں اور پکار پکار کے ہنر مند شاعر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ فنکار کا کوئی فن پارہ اگر بولتا ہوا محسوس نہ ہو تو دل ودماغ اس سے متاثر نہیں ہوتے۔

ہے چُبھن مستقل قرار کے ساتھ
پھول ڈالی پہ جیسے خار کے ساتھ

صبح کا انتظار ہے لیکن
بے یقینی ہے اعتبار کے ساتھ

خواہشِ باغباں ہے یہ شاید
زرد رُت بھی رہے بہار کے ساتھ

میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ

پیڑ نعمت بدست و سرخم ہیں
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ

محولہ بالا اشعار بھی سادگی بیان کا اچھا نمونہ ہیں، خیالات مناسب ہیں، ان میں علوے فکر نہیں مگر ان کے مشاہدہ وجذبات اور احساس کے دل کش پیکر ضرور ہیں۔
سیدفخرالدین بلے صاحب نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور جس صنف میں شعر کہے ہیں ۔ان میں تازہ بیانی کے ساتھ پختگی ہے۔ وہ نظم و غزل کے منجھے ہوئے شاعر تھے۔سیدفخرالدین بلے پر بہت سے مشاہیر نے لکھاہے۔مشہور کالم نویس، شاعر، دانشور جناب جمیل الدین عالی نے ان پر کئی اقساط میں کالم لکھے ہیں۔ صاحبانِ علم وفکر، شعراءوادبا کی آراءبھی لکھی ہیں۔ پروفیسر افتخار اجمل شاہین مرحوم نے بھی دو مضمون لکھے ہیں، جن میں مشاہیر اہل قلم کی آرابھی شامل کی ہیں۔ سید منصور عاقل صاحب نے بھی ان کے متعلق تحقیقی معلومات لکھی ہیں۔ میں نے ان سے استفادہ کیا ہے اور بلے صاحب کی شخصیت پر اظہار کیا ہے۔ منصور عاقل صاحب تو سید فخر الدین بلے صاحب سے بہت قریب رہے۔ وہ ان کی نجی زندگی سے بھی واقف ہیں ۔ان کے متعلق جو کچھ تحریر کیا ہے۔ حقیقت پر مبنی ہے۔ جناب سید منصور عاقل نے ان کی شاعر ی کے حوالے سے بھی ان پر اظہار خیال کیا ہے اور اشعار بطور نمونہ پیش کئے ہیں۔ اخبار جنگ میں بھی ان پر ایک مضمون شائع ہوا تھا ۔جس کے لکھنے والے جناب عباس خان ہیں ۔عباس خان نے جو مضمون تحریر کیا ہے، وہ محقق ہے۔ بلے صاحب کی ادبی زندگی، صحافتی کام وتالیفات، فروغ ثقافت، تحقیق سبھی اجمالی طور پر لکھا ہے ۔جو بلے صاحب کی زندگی کو سمجھنے میں بڑا مددگار ہے۔ اخبار جہاں میں لاہور کی ادبی سرگرمیاں جناب شاہد بخاری کی لکھی ہوئی ہیں، جس سے کئی معلومات میں اضافہ ہوا۔شازیہ عنبرین رانا نے بھی ان پر اظہار خیال تحریری طورپر کیا ہے۔ جس میں کئی باتیں نئی ہیں۔ ان سب باتوں کی روشنی میں جناب بلے کی شخصیت ، فن، شاعری، خدماتِ علم وادب اور زندگی کے دیگر معاشرتی ومعاشی مسائل کا علم ہوتا ہے۔ وہ ایک کثیر الجہت، زندگی کے راہ رو تھے۔ ان میں اوصافِ حمیدہ وجلیلہ بدرجہ اتم موجود تھے۔ اس دنیا میں بحیثیت انسان جو لوگ بڑے انسان کہلاتے ہیں اور ان میں جو خصوصیات واوصاف ہوتے ہیں، سب بلے صاحب میں موجود تھے۔ ، وہ اساتذہء متقدمین سے لیکر متاخرین تک کے کلام میں عجیب عجیب ردیفیں نظر آتی ہیں۔ ان ردیفوں کا صحیح طورپر استعمال کرنا بڑا کمال ہے۔ ایسی ردیفیں قادر الکلامی کا تقاضا کرتی ہیں ورنہ ردیف قافیے کا ساتھ دیتی ہے نہ مضمون کا، بلے صاحب کے یہاں بھی کئی ردیفیں ذرا سی مشکل بھی ہیں مگر ان کی قادرالکلامی نے انہیں خوب نبھایا ہے۔ مندرجہ ذیل غزل کی ردیف دیکھئے اور مضمون کے علاوہ قوافی سے ردیف کا تعلق کتنا پختہ ہے۔

کھلیں گلاب تو آنکھیں کھلیں اچُنگ چلے
پون چلے تو مہک اسکے سنگ سنگ چلے

ہے میرا سوچ سفر فلسفے کے صحرا میں
ہوا کے دوش پہ جیسے کٹی پتنگ چلے

کسی کا ہوکے کوئی کس طرح رہے اپنا
رہِ سلوک پہ جیسے کوئی ملنگ چلے

طویل رات ہے ، بھیگی سحر ہے ، ٹھنڈی شام
بڑے ہوں تھوڑے سے دن تو بسنت رنگ چلے

وہ دور ہوں تو کٹے ساری رات آنکھوں میں
قریب آئیں تو قلب ونظر میں جنگ چلے

چلے ازل سے ابد کے لئے تو رستے ہیں
پڑاءو دنیا میں ڈالا کہ کچھ درنگ چلے

خلا نورد ہیں ایسے بھی جو ستاروں میں
بناکے تیشہ ءفرہاد سے سرنگ چلے

محولہ بالا غزل کا ایک ایک شعر سلیم الحواس ہوکر انتقادی نظر کے ساتھ دیکھئے۔ آ پ کو ردیف کسی شعر میں الگ محسوس نہیں ہوگی۔ ہر شعر میں مضمون اور قافیے کے ساتھ مربوط ہے۔ ذرا بھی ڈھیلاپن نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو قافیہ بھی استعمال ہوا ہے، اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہے ۔ایسی زمین میں ایسے صاف ستھرے، شعری جمال لئے ہوئے شعر نکالنا آسان نہیں ۔بلے صاحب کی قدرتِ کلام کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ وہ کوئی تاریخ ساز شاعر نہیں ہیں نہ آفاقی نوعیت کا، کام ہے، مگر وہ اردوکے لاکھوں شعراءمیں سے چند شعراءمیں ضرور شمار ہوتے ہیں۔جوتوانا لہجے اور علوئے فکر کے شاعر ہیں۔ اپنے ماضی قریب کے معتبر شعراءاور اپنے ہم عمر، معاصر شعرا میں وہ کسی سے کم زور شاعر نہیں۔ وہ قادرالکلام شاعروں میں شمار ہونگے۔ انکے یہاں عجز بیان کی کمزوری نہیں۔ وہ جس خیال کو جس طرح باندھنا چاہتے ہیں، آسانی سے نظم کرلیتے ہیں۔ الفاظ انکے مطیع ومنقاد ہوجاتے ہیں۔ کسی شاعر کے لئے یہ بہت بڑی خوبی ہے۔ ان کے معاصرین جو ممتاز ومنفرد ومقام رکھتے ہیں ،ان کے کلام کا انتقاوی واستحسانی جائزہ لیا جائے تو وہ سید فخر الدین بلے صاحب سے بلند نہیں۔ احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، ڈاکٹر وزیر آغا، شہزاد احمد، نصیر الدین نصیر گولڑوی، جمیل الدین عالی، احمدفراز، ڈاکٹر عاصی کرنالی، راغب مرادآبادی، تابش دہلوی، سرشارصدیقی، رساچغتائی،محمود شام، جگن ناتھ آزاد، صہبااختر، جون ایلیا کے علاوہ بہت سے صاحب علم وفکر شعر ائے پاک وہند میں وہ سب کے شانے سے شانہ ملائے کھڑے ہیں، یہ اور بات کہ شہرت وناموری اور مرتبہ شاعرانہ سبھی کو ایک جیسا نہیں ملتا۔ مگر اس کی کمی سے کوئی بلندوبانگ اور علوے فکر رکھنے والا شاعر کمزور شاعر نہیں ہوتا۔ بلے صاحب پروپیگنڈے کے بل پر مشہور ہونے والے شعرا میں نہیں۔ ان کی عظمت شاعرانہ ان کے کلام کے بل پر ہے۔ کسی لابی کے بڑھائے شعراءمیں سے نہیں تھے۔ دور حاضر میں اپنی پہچان اور شہرت کیلئے اکثر شعراء، مختلف ذرائع اختیار کرتے ہیں اور لابیاں بناتے ہیں۔ فخرالدین بلے صاحب پروپیگنڈا کی تحریک چلانے والے شعراءمیں سے نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شعر وادب کا مخصوص حلقہ ہی ان سے واقف تھا، عوامی طور پر وہ مشہور شخصیت نہیں تھے۔بلے صاحب کی شاعری کسی ایک مرکز کے گرد نہیں گھومتی۔ وہ اطراف نگر شاعر تھے۔ وہ کسی نظریے کے بھی پرچار کے قائل نہیں تھے۔ ان کے متعلق کئی ناقدین اور مشہور علمی وادبی شخصیات نے لکھا کہ وہ علم تصوف میں اتھارٹی تھے، یہ بات بالکل درست ہے۔وہ فلسفہ تصوف کا علم رکھنے والی بڑی شخصیت تھے۔خصوصاً فلسفہ وحدت الوجود پر ان کو کمال حاصل تھا۔ وہ خالص “ہمہ اوستی”صوفی تھے۔ صوفی سے مراد مزاجاً وہ صوفی تھے۔فکر و نظر ان کی صوفیانہ تھی، لباس اور ہیئت اوردیگر صوفیانہ رسم ورواج کے قائل نہیں تھے۔ ان کا جو کلام میری نظرسے گزرا ہے، اس کی بنیادپر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تصوف اور معرفت کے اشعار ان کی غزلیات میں کم اور وہ اشعار زیادہ ہیں، جو معاشرتی عوامل اور حیات وکائنات سے تعلق رکھتے ہیں۔ آیئے کچھ اور اشعار ان کے پڑھئے ایک مکمل غزل مندرجہ ذیل ہے۔

ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
دنیا سمٹ رہی ہے، بکھرنے کے باوجود

راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود

اس بحرِ کائنات میں ہر کشتی انا
غرقاب ہو گئی ہے ابھرنے کے باوجود

شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہوئے ہیں پھول نکھرنے کے باوجود

زیرِ قدم ہے چاند،ستارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماںِ سے اترنے کے باوجود

میں اس مقام پر تو نہیں آگیا کہیں
ہوگی نہ صبح رات گزرنے کے باوجود

الفاظ وصوت ورنگ وتصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

ابہامِ آگہی سے میں اپنے وجود کا
اقرار کر رہا ہوں ، مکرنے کے باوجود

مندرجہ بالا اشعار کی ردیف دیکھئے اور قافئے بھی دیکھئے ۔شاعر موصوف نے کس خوبی سے خیال کے ساتھ ربط پیدا کیا ہے اور ردیف کو نکلنے نہیں دیا ہے۔ اس غزل کا بھی کوئی شعر دولخت نہیں ہے۔ ہر شعر خوبصورت شعری بنت کے لحاظ سے منفرد ہے۔ اس غزل کے کئی شعر انداز بیان کے سبب تاثیر کے حامل ہیں اور کئی اشعار میں عمدہ فکروخیال نے جان ڈال دی ہے۔ معمولی سے معمولی علم رکھنے والا ان شعروں سے اپنے ظرف کے مطابق حظ اٹھاسکتا ہے۔ ہر اعتبار سے یہ غزل انکی منفرد غزلوں میں سے ہے۔ یہ شعریت کے لحاظ سے کمزور نہیں۔ مندرجہ ذیل غزل بھی دیکھئے داددیے بغیر نہیں رہینگے۔ آسان قوافی میں ہلکی پھلکی ردیف کے ساتھ شعری رنگ بکھیرے ہیں:

ایک ہی جیسے لگے سُننے میں افسانے کئی
ہو بھی سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہوں ہم سے کئی

چار آنکھیں چاہئیں اس کی حفاظت کیلئے
آنے جانے کیلئے جس گھر میں ہوں رستے کئی

آدمی کے پر لگے ہیں جب سے سمٹی ہے زمیں
اب تو جینے کے لئے درکارہیں چولےکئی

ٹھن گئی ہے اس لئے تقدیر اور تدبیر میں
ہاتھ تو ہر اِک کے دو ہیں اور گل دستے کئی

بات قسمت کی نہیں ، دل تھا ہوس نا آشنا
ورنہ ہم کو بھی ملے تھے کام کے بندے کئی

قربتوں سے فاصلوں کی جس سے بیداری ملی
جسم وجاں کے درمیاں آئے نظر پردے کئی

بھیڑ میں ایسے گھرے کہ بڑھ گئیں تنہائیاں
ساتھ ہی لیکن ہوئے آباد، ویرانے کئی

لب پہ ہلکی سی ہنسی اور قلب ڈانواں ڈول ہے
راہ میں کعبے کے پڑتے ہیں صنم خانے کئی

مندرجہ بالااشعار،کلاسیکی اور جدید انداز فکرواسلوب کے چاک پر گھوم رہے ہیں۔خوبصورت انداز میں یہ ظروف شعری اپنے صورت گر کی ہنرمندی کا آئینہ ہیں۔ بلے صاحب کے یہاں یہ خوبی بدرجہ اتم
ملتی ہے کہ زبان شعر نرم ونارک اور سہل رکھتے ہیں۔جو فوراً دل ودماغ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

اب شبِ غم اگر نہیں نہ سہی
دامنِ برگ تر نہیں نہ سہی

زندہ دارانِ شب کو میری طرح
انتظارِ سحر نہیں نہ سہی

دشت پیما کے آس پاس اگر
کوئی دیوار و در نہیں نہ سہی

عام ہے جستجوئے جہلِ خرد
شہر میں دیدہ ور نہیں نہ سہی

ہر نفس ایک تازیانہ ہے
آہ میں کچھ اثر نہیں نہ سہی

موت ہے مستقل تعاقب میں
زندگی خود نگر نہیں نہ سہی

سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی

مندرجہ بالا اشعار چھوٹی بحر میں سہل ممتنع کے ساتھ ہلکے پھلکے خیالات کے تناظر میں بھاری بھرکم مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ شعروں میں کس قدر بہاو ہے، بالکل رواں، لفظوں کا چناو نہایت عمدہ ہے۔ شعروںمیں فکروخیال کی تفصیل کو اجمال بنادیا ہے۔ شاعری میں ایجاز واختصار کی بڑی اہمیت ہے۔ جِسے بلے صاحب نے اپنے شعروں میں سمودیا ہے۔
سیدفخرالدین بلے صاحب نے بھی بڑی اچھی نظمیں کہی ہیں۔ جن میں بڑی روانی ہے مگر انہوں نے غزل بھی خوب کہی ہے۔ ان کی غزلیات کے اشعار اورکچھ مکمل غزلیں زیر نظر مضمون میں بطور نمونہ دی گئی ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کی غزلوں کے زیادہ اشعار بے حد اعلیٰ اور پرمغز ہیں۔ غزل کے دونوں روپ ان کے یہاں نظر آتے ہیں ۔سہل ممتنع کے حسن سے لبریز غزل اور شوکت الفاظ کا زیور پہنے ہوئے جو غزلیں ہیں، وہ اپنی روانی وفصاحت میں لاجواب ہیں۔ اب میں بلے صاحب کی منظومات کی طرف آتا ہوں۔ جسے میں اجمالی طورپر دکھاوں گا۔ انہوں نے بے حد اچھی نظمیں کہی ہیں۔ ان میں پابند نظمیں بھی ہیں۔ اور آزاد ومعرا منظومات بھی۔ وہ نذر قارئین کرتا ہوں۔ انہیں پڑھیں، اور انکی قادرالکلامی کی داد دیں۔ بلے صاحب کی نظموں کی زبان بھی غزلوں کی زبان کی طرح شگفتہ وشستہ ہے۔ ان میں بہاوخوب ہے۔ وہ جس موضوع یا عنوان پر نظم کہتے ہیں، وہ مربوط ہوتی ہے۔ کسی شعر میں بے ربطی کا جھول نہیں ملتا۔ وہ غزل کی طرح نظم کے بھی کامیاب شاعر ہیں، سید فخرالدین صاحب منظر کشی کرنا خوب جانتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں ، ان کی ایک نظم “باران کرم “،جو انہوں نے وادیء بولان کی برف باری سے متاثر ہوکر کہی ہے۔

 بارانِ کرم
(کوئٹہ کی برفباری سے متاثر ہو کر )
گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اِک چیز پہ جالے
دُھنکی ہوئی روئی کی طرح صاف شگفتہ
شفاف ، سبک ، نازک و خودرفتہ و خستہ
رخشندہ و تابندہ و رقصندہ جوانی
یہ برف کی بارش ہے کہ پریوں کی کہانی
دوشیزگیٔ شام و سحر کے یہ سنبھالے
چھائے ہوئے بکھرے ہوئے ہر سمت اُجالے
چاندی میں نہائے ہوئے یہ کوہ و بیاباں
ہے عام بہ عنوانِ طرب زیست کا ساماں
انوار کا ٹیکہ ہے پہاڑوں کی جبیں پر
غالیچۂ سیمیں ہے بِچھا ہے جو زمیں پر
موتی ہیں کہ دامن میں کوئی رول رہا ہے
جوبن کی ترازو میں سحر تول رہا ہے
ہر برگ و شجر رشکِ تنِ یاسمنی ہے
صحن و درو دیوار کی کیا سِیم تنی ہے
گو عارضی بخشش سہی فطرت کی یہ چھل ہے
ہر ایک مکاں آج یہاں تاج محل ہے
شوخیٔ مناظر میں نظر کھوئی ہوئی ہے
زانوئے شبستاں پہ سحر سوئی ہوئی ہے
چمپا سے چنبیلی سے ہراک زلف گُندھی ہے
ہر ایک سر ِ کوہ پہ دستار بندھی ہے
یا چشمے پہ جیسے کوئی مہناز بنا کر
بیٹھی ہے بصد ناز اداؤں کو چُرا کر
ہے وادیٔ بولان کہ حوروں کا بسیرا
ہر گام پہ حانی نے لگا رکھا ہے ڈیرا
چاندی کا کٹورا ہے سرِ آب پڑا ہے
بِلّور کا ساغر ہے کہ صہبا سے بھرا ہے
ہر ذرے سے جوبن کی کرن پھوٹ رہی ہے
انوار سے ظلمت کی کمر ٹوٹ رہی ہے
ہیں کوثر و تسنیم بھی،ساقی بھی ہے،مے بھی
ہے ساز بھی،مضراب بھی ،آواز بھی ‘لَے بھی
مطلوب بھی موجود ہے ،طالب بھی،طلب بھی
پائل بھی ہے ،جھنکاربھی ،مطرب بھی ،طرب بھی
منظر بھی ہے،منظور بھی، ناظر بھی، نظر بھی
ہے ناز بھی‘ انداز بھی‘ اندازِ دگر بھی
ہیں ارض و سما ، کون و مکاں نور میں غلطاں
بارانِ کرم ہے کہ اترتا ہوا قرآں
ہر منظرِ پُر کیف پہ جنت کا گماں ہے
سڑکوں پہ پڑی برف ہے یا کا ہ کشاں ہے
ہر ذرّہ ہے مہتاب ، ہر اِک ذرّہ ہے خورشید
ہے برف کہ اک جشنِ جہاں تاب کی تمہید
اس برف سے رعنائی و شوخیٔ گل ِ تر
یہ برف ہے پیشانیٔ بولان کا جھومر
یہ برف بلوچوں کی دعاؤں کا ثمر ہے
یہ برف نہیں فصلِ بہاراں کی خبر ہے
اس برف سے مہوش تری تصویر بناؤں
بت ساز بنوں اور صنم دل میں بٹھاؤں
ڈرتا ہوں مگر برف پگھل جائے گی اک دن
انفاس کی حدت سے یہ گل جائے گی اک دن

نظم کا کوئی شعر ایسا نہیں، جو پراثر نہ ہو۔ اور اس میں کسی کیفیت کا عکس موجود نہ ہو۔ لفظیات میں کسی چیز کا منظر دکھانا بڑی کاری گری کا عمل ہے۔ مرصع شاعری میں ایک بہت مشکل کام سمجھا جاتا ہے۔ عنوان کے مطابق الفاظ کا چناو اور پھر ہر پہلے سے دوسرے شعر کے ساتھ ربط معنوی۔ شاعرانہ مہارت کا آئینہ ہے۔ اس نظم کو پڑھ کر احسان دانش، نادر کاکوروی، صہبا اختر،شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کا انداز شعر گوئی سامنے آجاتا ہے، جس طرح مذکورہ شعراءکو قدرت کلام حاصل تھی۔ جناب فخرا لدین کو بھی حاصل ہے۔ وہ اس تناظر میں نظم کے ایک ماہرصورت گرنظر آئے۔
مندرجہ بالا نظم کی طرح ان کی دوسری نظم ”ہنگامِ محشر“بھی ملاحظہ فرمایئے۔ یہ کوئٹہ میں برفباری کا دوسرا منظر نامہ ہے۔ اس نظم کو بھی پڑھ کر انکی منظر کشی پر مہارت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ انتقادی اور تاثراتی واستحسانی روشنی بلے صاحب کی سحر زبانی اور طرفگی ءخیالات کے تشبیہات واستعارات اور خوبصورت مرکبات بنانے پر داد کے ڈونگرے برسانے کو جی چاہتا ہے۔
برف باری پران کی دوسری نظم ملاحظہ فرمائیے۔ عنوان ہے ۔ ہنگام ِ محشر

ہنگامِ محشر
(کوئٹہ میں برفباری کی تصویر کا دوسرا رُخ )
ہے برف کے اِ س عکس میں سرشاری و مستی
لیکن ہے اِسی عکس کا اِک دوسرا رخ بھی
تصویر کے اس رُخ میں ہے ژولیدہ جوانی
ہے ہوش رُبا صبر طلب ،جس کی کہانی
گھنگھور گھٹائیں ہیں دھواں دھار دُھندلکا
یَخ بستہ ہواؤں سے ہے اِک حشر سا برپا
آبادیاں مانندِ بیاباں ہیں لَق و دَ ق
آتا بھی ہے ذی روح نظر کوئی تو منہ فق
حرکت ہے نہ ہلچل، نہ حرارت، نہ جنوں ہے
پُر ہَول فضا زیست گرفتارِ فسوں ہے
سنسان گلی کوچے ہیں اجڑے ہوئے بازار
ہیں برف میں مدفون چمن سبزہ و گلزار
ہر چیز ہے ٹھٹھری ہوئی افسردہ و بے رنگ
ہر آن ہوئے جاتے ہیں دامانِ نظر تنگ
ہے ساز نہ آواز نہ بربط ہے نہ دَف ہے
کُل سلسلۂ کون و مکاں برف بکف ہے
بے جان ہیں احساس و گماں ہُو کا ہے عالم
چلتی ہے ہوا جب تو شجر کرتے ہیں ماتم
سردی کا یہ عالم ہے جگر کانپ رہے ہیں
منہ برف کی چادر سے سبھی ڈھانپ رہے ہیں
پابندِ نشیمن ہے کوئی غار میں پابند
ہیں طفل و زن و پیرو جواں گھر میں نظر بند
راہوں میں رکاوٹ ہے ہر اک گام پہ قدغن
یہ برف ہے یا زیست کے آثار کا مدفن
یہ برف ہے یا مرگ و قیامت کی نشانی
بے رنگ ہو جیسے کسی بیوہ کی جوانی
واللہ کہ ایمان لرزتا ہے دلوں میں
آتش کدے آباد مساجد میں گھروں میں
برفیلی چٹانوں کا ہر انداز ہے بھونڈا
بے رنگ ہو جیسے کسی خُرانٹ کا چونڈا
محرومِ تپِ زیست کا ٹھٹھرا ہوا تن ہے
ہے برف پہاڑوں پہ کہ کوڑھی کا بدن ہے
باغات خزاں دیدہ ہیں، پامال چمن ہے
یہ برف ہے یا مُرد ہ پہاڑوں کا کفن ہے
گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اک چیز پہ جالے

 بلے صاحب نے ایک نظم “بازیافت”کے عنوان سے لکھی ہے ۔ یہ نظم بہ اعتبارِ لفظیات، مع علامات و لوازمات شعری خوبصورت نظم ہے، ہر لفظ بولتا ہو محسوس ہوتا ہے، کسی بات کے بیان کا ندرت آفریں ڈھنگ شعریت کو جمال بخشتا ہے۔ کسی خیال، یا موضوع کے مطابق لفظوں کا انتخاب، سریع التاثیری کا باعث ہوتا ہے۔ اس نظم میں مذکورہ خوبی پائی جاتی ہے۔ محاسن و روائع بھی اس میں موجود ہیں۔ ایک اچھی آزاد نظم ہے۔بلے صاحب نے سالگرہ کا تحفہ کے عنوان سے نظم میں کمال کردکھایا ہے ، طرفگی ءبیان سے خوبصورت تشبیہات و استعارات اور دیگر شعری ضرورتوں کے ساتھ نہایت شاعرانہ کاریگری کے ساتھ اس نظم کو سریع التاثیر بنادیا ہے۔
سیدفخرالدین بلے صاحب کو ملتان سے بہت پیار تھا۔ یہ اولیاءوصلحاءکی سرزمین ہے۔ یہاں کی آب وہوا بلے صاحب کوراس آئی۔ ملتان سے محبت ان کے سخنوری کے آئینے خانے میں بڑی سادگی وصفائی سے منعکس ہوگئی۔ انہوں نے اسکی تاریخی حیثیت پر بھی اظہار خیال کیا ہے ۔”ملتان ما” ایک خوبصورت تاریخی تلمیحی نظم ہے، اس میں شاعر موصوف کا دل دھڑک رہا ہے۔
سید فخرالدین بلے صاحب نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔ انکے یہاں کوئی صنف شاعری عجز بیان کا شکار نہیں ہوئی ہے۔ وہ ہرمعنوی صنف سخن میں مہارت رکھتے ہیں ۔ان پر مضامین لکھنے والوں نے انکی حمدنگاری اور نعت گوئی کے متعلق بھی بہت اچھا اظہار کیا ہے۔وہ حضورکریم ﷺختمی مرتبت سے بے حدمحبت کرنے والے تھے ۔ان کی عقیدت میں نعتیں بھی کہی ہیں وہ حمد اور نعت کے باریک فرق سے پوری طرح باخبر تھے۔ وہ عبدومعبود کے درمیان خطِ فاصل کھینچناجانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ شرک جلی کیاہے اور شرک خفی کیا ہے۔ صوفیاءحضرات اپنی ذوقی حالت میں مقام الوہیت ورسالت کی حدیں پارکرجاتے ہیں۔ پھر اس کی تاویلات کرتے ہیں۔ بلے صاحب بھی ایک صوفی تھے ۔ان کی صوفیت عالم بیداری میں رہی۔ ان کا عالم سکر بھی صحوی مزاج رکھتا تھا۔ انہوں نے حمد ونعت کے ڈانڈے نہیں ملائے۔ واجب الوجود کیا ہے اور انہیں ہرمرحلے پر یہ یاد رہا۔
اس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کا کلام میرے سامنے ہے۔ اس میں وہ ایک منجھے ہوئے صاحب فکر ونظر شاعرنظر آتے ہیں۔ ان کا لہجہ شاعری میں کہیں بہت نرم ونازک ہے اور کہیں اس میں شگفتگی ہے۔ وہ مجموعی طورپر دیدہ ور شاعر کے روپ میں سامنےآتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں محاسن کی کمی نہیں۔
سید فخرالدین بلے نے اپنی نظموں میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بیان کیا ہے مسلمانوں کےخلاف جو صیہونی، سازشیں ہیں ،ان کی طرف اشار ہ کیا ۔ وہ کہتے ہیں ایک زمانہ تھا جب مسلمان قوم کی تکبیریں ساری دنیا میں گونجتی تھیں اور اصنام پرست ان سے لرزاں تھے ، ہمیں پھر سے نیابابِ ایثاروشجاعت خون سے رقم کرنا ہوگا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت پر گامزن ہوکر جینے کے لئے مرنا ہوگا، ناوک بہ گلو اصغر کی قسم، میخانہ ءدیں میں شہ رگ سے ہر جامِ وفا بھرنا ہوگا ۔وہ مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:

ہے اپنا علم کالی کملی اور ابن علی کا پیراہن
اے مسجد اقصیٰ تیرے لئے ہم خون سے ہولی کھیلیں گے
ہم رزم و وفا عادی ہیں، ہے جان گنوانا اپنا چلن

بلے صاحب کی حیات مسلسل جہدوجہد میں گزری ۔اپنی زندگی علم ادب، شاعری، صحافت، تصنیف وتالیف میں گزاری۔ وہ ایک بے نیاز شخصیت تھے ۔کسی صلے کی پروا کئے بغیر مصروف رہے ۔ان کاموں میں جو تنہا کرنے کے نہیں تھے مگر انہوں نے وہ اکیلے انجام دیئے اور کامیاب رہے۔بلے صاحب کی سکونت جہاں جہاں رہی ۔ان میں کراچی۔ لاہور۔ اسلام آباد۔ راولپنڈی۔ سرگودھا۔ ملتان۔ کوئٹہ۔ قلات۔ خضدار اور بہاولپور میں دوران ملازمت مختلف اوقات میں قیام رہا۔آ پ کا حلقہ احباب و معتقدین بہت وسیع تھا وہ مرتے دم تک فعال رہے۔
فخر الدین بلے صاحب نے ملتان میں 28جنوری 2004کو وفات پائی اور قبرستان نورشاہ بخاری بہاولپور میں دفن کئے گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
جناب فخر الدین بلے بہت پڑھے لکھے، وسیع المطالعہ انسانوں میں سے ایک تھے۔ وہ اردو، فارسی، عربی، انگریزی، پنجابی، سرائیکی پر عبور رکھنے والے شاعر وادیب تھے۔ وہ ملک کے بہت بڑے سچے اور غیرجانبدار صحافی تھے۔ وہ کتنے رسائل وجرائد اور اخبارات کے مدیر بھی رہے۔ ان کی نثر میں بڑی زندگی اور توانائی محسوس ہوتی ہے اور اپنی نثر میں کبھی کبھی انشائی رنگ بھی بکھیر دیتے تھے۔ جو شاعری کا مزہ دینے لگتی تھی۔ وہ ان ادیبوں اور شاعروں میں سے تھے ،جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ہم عمر وہم پلہ شاعروں اور ادیبوں سے معاصرانہ چشمک بالکل نہیں رکھتے تھے۔اپنے چھوٹوں اور نئی نسل کے ادیبوں و شاعروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ وہ اہل علم وفضل اور دانشوروں، شاعروں ، ادیبوں اور صوفیوں کے مخصوص حلقے میں بہت احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ ہر عامی ان سے زیادہ واقف نہ تھا۔ ہاں جو ذرا سا بھی شعروادب اور صحافت سے دلچسپی رکھتا ہے ،وہ ان سے واقف ہے ۔ان کی اوبی خدمات کی بڑی طویل فہرست ہے ۔میں عرض کرچکا ہوں، فلسفہ ءتصوف ومعرفت ان کا خاص موضوع رہا۔ اس میں شک نہیں وہ بڑی جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے۔ وہ بڑے متواضع انسان تھے۔ ان پر بہت سے معتبر صاحبان ِعلم وفکر نے لکھا ہے۔ انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ان کی عظمتوں کا اعتراف کیا ہے اور انکو معتبر شعراءمیں جگہ دی ہے۔ جس کے وہ پوری طرح مستحق تھے۔جاذب قریشی نے فخرالدین بلے صاحب پر بھی ایک مختصر اظہار یہ لکھا ہے انہوں نے کوشش کی ہے کہ بلے صاحب کی مفصل زندگی کا اجمال سمٹ آئے۔ جاذب صاحب کا مذکورہ مضمون انکی کتاب “اظہاریئے” میں موجود ہے۔سیدفخرالدین بلے صاحب پربہت سے صاحبان فکرونظر شعراءو ادبا اور صحافیوں نے لکھا ہے۔ مختصر وطویل آراءدی ہیں جن میں کچھ کی آرا میں گزشتہ سطور میں لکھ چکا ہوں۔ مزید آراءمندرجہ ذیل ہیں۔
پریشان خٹک کہتے ہیں : “فخرالدین بلے علم وادب اور فنون وثقافت کی دنیا کی دیوقامت شخصیت ہیں۔ بہت سے اداروں نے بھی اتنی خدمات انجام نہیں دی ہیں، جتنی صرف تن تنہا سید فخر الدین بلے نے دی ہیں”۔ پروفیسر حمیدرضا صدیقی فرماتے ہیں۔”فخرالدین بلے کی تہتر سالہ زندگی مصروفیات اور حرکت سے عبارت تھی۔ انہوں نے اپنے وقت کا بھرپور اور صحیح استعمال کیا”۔
منظرعارفی ایک شاعروادیب ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اپنی تالیفات وتصنیفات پر اور مقالوں پر چار ایوارڈزحاصل کرچکے ہیں وہ فخرالدین بلے کے متعلق لکھتے ہیں ۔” جناب فخرالدین بلے بیسویں صدی کی عظیم ہستیوں میں سے تھے، انکی شاعری اور انکی ادیبانہ وصحافیانہ شان نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے ان کی شاعری کا جو انتخاب پڑھا ہے ،بے حد اعلیٰ ہے۔
پروفیسر عاصی کرنالی لکھتے ہیں ۔” فخرالدین بلے ایک شخص کا نہیں ایک یونیورسٹی اور ایک تہذیبی ادارے کا نام ہے”۔ نور احمد میرٹھی نے میرٹھ کے شعراءاور ادباءکا تذکرہ لکھا ہے۔ انہوں نے سیدفخرالدین بلے صاحب کا ذکر کیا ہے کیونکہ انہوں نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تھی اور علی گڑھ کے شیدائی تھے۔ وہ لکھتے ہیں ۔
“محترم فخرالدین بلے بچپن سے ہی شعری وعلمی ذوق رکھتے تھے۔ آپ نے1944 میں شعری سفر کا آغاز کیا تھا اور آج خوش فکر اورصاحبِ فن شاعر ہیں”۔
ڈاکٹرانورسدید فرماتے ہیں ۔”انہوں نے حالات کی کلائی موڑنے کے بجائے اپنے احساسات، مشاہدات اور تجربات کو اہمیت دی اور وہ رنگ جو خود ان کے اندر تھا، اسے خارج کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے سوالات نے اہمیت اختیار کی جو تشکیک سے اٹھتے ہیں۔ ازلی اور ابدی ہیں اوربالاخر جستجوئے صداقت کی راہ دکھاتے ہیں۔ مجلس آرائی سید فخرالدین بلے صاحب کی فطرت کا روشن زاویہ تھا۔ سرگودھا میں انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کو آراستہ کیا۔ لاہورمیں ہر ہفتے “قافلہ”نام کی مجلس آراستہ کرتے تھے ۔ملتان گئے تو یہ مجلس ساتھ لے گئے اور ان کی وفات تک اس کے جلسے ہوتے رہے۔
پروفیسر اظہرعلی رضوی لکھتے ہیں۔
“مرحوم بلے کی شاعری میں شامل تمام تراکیب ان کی اپنی ہیں، وہ منفرد خیالات، خوبصورت الفاظ کے چناو اور ان کے بہاءو اور بدلاءو سے رچاو پیدا کرتے تھے”۔
محسن بھوپالی فرماتے ہیں۔ “سید فخرالدین بلے ادب دوست اور ادب نواز ہونے کے ساتھ ساتھ ادیبوں، شاعروں اورتخلیق کاروں کو ایک قافلے کی صورت میں لیکرچلتے رہے۔ جہاں جہاں رہے، ادیبوں اور شاعروں کو ایک کنبہ بنادیا۔ اردو، انگریزی، ہندی، فارسی زبان میں لکھتے ہوئے انہوں نے کبھی دقت کا سامنا نہیں کیا۔ ایسا لگتا تھا سب ان کی مادری زبانیں ہیں”۔
سید فخرالدین بلے بڑی اعلی صفات سے متصف تھے۔ بحیثیت انسان بھی نہایت وسیع الاخلا ق تھے۔ ایک مرتبہ وہ کراچی تشریف لائے تو مشتاق مبارک مرحوم جو حبیب جالب مرحوم کے بڑے بھائی تھے اور انفارمیشن میں ڈائریکٹر تھے ۔اُنہوں نے انکے اعزاز میں مشاعرہ اپنی قیام گاہ پر کیا ۔میری پہلی اور آخری ملاقات وہیں ہوئی تھی۔ ۔اس شعری نشست میں راغب مرادآبادی، سرور سنبھلی، اکرام فتح پوری، وقار صدیقی، خالد علیگ،
راقم الحروف اور منظر امکانی شریک تھے ۔انہوں نے چار غزلیں اور دونظمیں سنائیں۔ بلے صاحب واقعی ایک بڑے انسان ،اعلیٰ شاعر، صحافی اور فنون لطیفہ کے متعلق گہری اور وسیع معلومات رکھتے تھے ۔ انہوں نے زندگی علم وادب کی خدمت میں گزار دی۔ وہ صوفیانہ مزاج کے اعلی مقام پر فائز تھے۔ ایسے انسان شاذ ہی ہوتے ہیں۔

Related posts

Leave a Comment