خالد علیم ۔۔۔ آنکھ اُس کی آج آئنہ دارِ نظارہ ہے

آنکھ اُس کی آج آئنہ دارِ نظارہ ہے
کیا دل کا اعتبار کہ بارِ نظارہ ہے

دیکھیں اگر تو چشمِ تصور میں وہ نگاہ
حُسنِ نظر ہے اور شمارِ نظارہ ہے

جل جل کے بجھ رہا ہے دریچوں میں عکسِ گل
یہ شامِ ہجر ہے کہ بہارِ نظارہ ہے

ہر سمت ہیں سراب کے منظر کھنچے ہوئے
کیا خوب تیری راہ گزارِ نظارہ ہے

تارے بجھے ہوئے ہیں، سسکتی ہے چاندنی
یہ رات ہے کہ سر پہ غبارِ نظارہ ہے

گرتی ہے قطرہ قطرہ شفق صبحِ ہجر میں
نم دیدۂ سحر کو خمارِ نظارہ ہے

اشکوں کی جل ترنگ نگاہوں میں جاگ اُٹھی
پلکوں کے زاویے میں سِتارِ نظارہ ہے

خوابیدگی کی رَو میں بھی ہوتی نہیں ہیں بند
مژگاں پہ کس کی یاد کا بارِ نظارہ ہے

شاید اُٹھائے لذتِ گرداب ،موجِ حُسن
پھر محوِ انتظار ، کنارِ نظارہ ہے

آئینوں پر ہے زنگ کی تہمت لگی ہوئی
ماتم سا کوئی قرب و جوارِ نظارہ ہے

ہر عضوِ گل پہ تنگ ہے موجِ صبا کا رَم
شاید نمودِ گل کو فشارِ نظارہ ہے

ہر چند خو نہیں ورقِ ماہتاب کی
صدیوں سے پارہ پارہ بہارِ نظارہ ہے

اِس بار پھر کہیں مری جاں ہی کو آ نہ جائے
اِس رات کی گرہ میں جو تارِ نظارہ ہے

خالدؔ ہو، میرؔ ہو کہ وہ سوداؔ ہو، عشق میں
ہے پائوں سے برہنہ، فگارِ نظارہ ہے

Related posts

Leave a Comment