شاہد ماکلی ۔۔۔ وسطِ سینہ میں غم کی تپش ہے ، فضا گرم ہے

وسطِ سینہ میں غم کی تپش ہے ، فضا گرم ہے
اِستوائی مقاموں کی آب و ہوا گرم ہے

کیا کریں سیر جاکر تناظُر کے قطبَین میں
اِن دنوں تو وہاں کا بھی موسم بڑا گرم ہے

معتدل ہے وہ حیرت کدہ ، جس میں رہتے ہو تم
جس میں ہم رہ رہے ہیں وہ حسرت سرا گرم ہے

گہما گہمی ہے کون و مکاں کے ہر اسٹال پر
خوش ہے مالک کہ بازارِ ارض و سما گرم ہے

ولولے کی تمازت سے ہیں دل کی سرگرمیاں
زندگی کی حرارت سے خطّہ مرا گرم ہے

بیکرانی میں گھومے پھرے ہیں ، پتہ ہے ہمیں
کون سا منطقہ سرد ہے ، کون سا گرم ہے

بھاپ اُڑاتے ہوئے چند چشموں کے سنگم پہ ہوں
یخ دنوں میں بھی میرا بہاؤ ذرا گرم ہے

جل چکی لمس کی حس ہماری تو بتلائیں کیا
گرم و سردِ زمانہ میں کیا سرد ، کیا گرم ہے

موڑ لوں گا کہ اب تک لچک دار ہے دل مرا
ڈھال لوں گا کہ اب تک تو لوہا مرا گرم ہے

Related posts

Leave a Comment