ارسلان ساحل ۔۔۔ جانے کیا سرزد ہوئی آخر خطا، ناراض ہے

جانے کیا سرزد ہوئی آخر خطا، ناراض ہے
ایک مدت ہوگئی ہم سے خدا ناراض ہے

دل بھی شاید ہے کوئی اجڑا ہوا ایسا نگر
ظلمتیں جس کا مقدر ہیں، ضیا ناراض ہے

تم جو بچھڑے شہر کی رونق ہوئی خواب ِاجل
چار سو شام و سحر آب و ہوا ناراض ہے

وہ جوکرتے ہیں مسلماں ہوکے بھی کا رِیزید
ان درندوں سے مرے رب کی رضا ناراض ہے

ہاتھ کو میرے جھٹک کے چل دیا سایہ مرا
میں ابھی یہ پوچھنے والا ہی تھا، ناراض ہے؟

رک نہ جائیں بن ترے ساحل کہیں یہ دھڑکنیں
اے مرے خوابوں کے چارہ گر! بتا ناراض ہے

Related posts

Leave a Comment