ارسلان ساحل ۔۔۔ جانے کیا سرزد ہوئی آخر خطا، ناراض ہے

جانے کیا سرزد ہوئی آخر خطا، ناراض ہے ایک مدت ہوگئی ہم سے خدا ناراض ہے دل بھی شاید ہے کوئی اجڑا ہوا ایسا نگر ظلمتیں جس کا مقدر ہیں، ضیا ناراض ہے تم جو بچھڑے شہر کی رونق ہوئی خواب ِاجل چار سو شام و سحر آب و ہوا ناراض ہے وہ جوکرتے ہیں مسلماں ہوکے بھی کا رِیزید ان درندوں سے مرے رب کی رضا ناراض ہے ہاتھ کو میرے جھٹک کے چل دیا سایہ مرا میں ابھی یہ پوچھنے والا ہی تھا، ناراض ہے؟ رک نہ جائیں…

Read More

ارسلان ساحل ۔۔۔ دو غزلیں

نفسا نفسی کی اس روانی میں بہہ گیا ہے خلوص پانی میں دکھ مکمل وجود رکھتے ہیں نامکمل سی زندگانی میں میں مُقلد ہوں قیس کا یعنی عمر گزری ہے رایگانی میں قصہ گو کب کا مر چکا لیکن ریل چلتی رہی کہانی میں ہم قلندر مزاج لوگوں کو لطف آتا ہے بے مکانی میں راج کرتی ہے اک سخن زادی میری غزلوں کی راجدھانی میں امتحاں لاکھ ہیں مگر ساحلؔ عشق لازم ہے زندگانی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رتجگوں کا سماں رات ساری رہا ، رقص جاری رہا خواہشوں کا فسوں…

Read More