ارسلان ساحل ۔۔۔ دو غزلیں

نفسا نفسی کی اس روانی میں
بہہ گیا ہے خلوص پانی میں
دکھ مکمل وجود رکھتے ہیں
نامکمل سی زندگانی میں
میں مُقلد ہوں قیس کا یعنی
عمر گزری ہے رایگانی میں
قصہ گو کب کا مر چکا لیکن
ریل چلتی رہی کہانی میں
ہم قلندر مزاج لوگوں کو
لطف آتا ہے بے مکانی میں
راج کرتی ہے اک سخن زادی
میری غزلوں کی راجدھانی میں
امتحاں لاکھ ہیں مگر ساحلؔ
عشق لازم ہے زندگانی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رتجگوں کا سماں رات ساری رہا ، رقص جاری رہا
خواہشوں کا فسوں دل پہ طاری رہا ، رقص جاری رہا

لوگ تصویرکے دوسرے رخ کو ہی سچ سمجھتے رہے
پر حقیقت سے ہرشخص عاری رہا ، رقص جاری رہا

موت برحق سہی سب نے مرنا ہے اک دن مگر دوستو
زندگی کا جنوں سب پہ بھاری رہا ، رقص جاری رہا

میں جہاں بھرکے ظلم و ستم سہہ گیا تیری خاطر مگر
تیرا بخشا ہوا زخم کاری رہا ، رقص جاری رہا
اک طرف بے خطا لوگ مارے گئے کس پہ وارے گئے؟
اک طرف ظلم کا کھیل جاری رہا ، رقص جاری رہا

وقتِ رخصت مگر ساتھ لیتا گیا سب کی سب رونقیں
جب تلک شہر میں وہ مداری رہا ، رقص جاری رہا

میں تہجد پڑھی لاکھوں سجدے کیے پر یہ گستاخ دل
عشق مذہب کا ساحلؔ پجاری رہا ، رقص جاری رہا

Related posts

Leave a Comment