ازور شیرازی ۔۔۔ ہم پھر بھی چاہتے ہیں کہ تیری زباں کھلے

ہم پھر بھی چاہتے ہیں کہ تیری زباں کھلے
گرچہ پڑے ہیں شہد کے سب مرتباں کھلے

اے دوست! یہ عوام نہیں ہیں ہجوم ہیں
کچھ سوچ کر دیا کرو اتنے بیاں کھلے

تجھ کو بتا رہا ہوں شراکت سے پیشتر
ہوتے ہیں کاروبار میں سود و زیاں کھلے

اب بھی زمیں پہ چلتا ہوں آہستگی کے ساتھ
گرچہ زمانہ بیت گیا بیڑیاں کھلے

دو مرلے کے فلیٹ میں کل خاندان ہے
میں کیسے مان لوں ترے کون و مکاں کھلے

تاعمر تو گھرا رہے یاروں کے درمیاں
تجھ پر مری طرح نہ صفِ دوستاں کھلے

کیوں ہے وصالِ یار پہ لوگوں کو اعتراض
پھولوں سے مل رہی ہیں اگر تتلیاں کھلے

Related posts

Leave a Comment