رضا اللہ حیدر ۔۔۔ درد کا کوئی نہ یاں درماں کرے

درد کا کوئی نہ یاں درماں کرے
جو بھی آئے زخم کو عریاں کرے

زندگی بھی تو وفا کرتی نہیں
موت ہی سے یوں گلہ انساں کرے

میرے گلشن میں اُداسی چھا گئی
کوئی آئے بلبلیں رقصاں کرے

راستہ تو نے چنا ہے پُرخطر
تیری تکلیفیں خدا آساں کرے

وہ تو بیٹھا ہے ہوا کے دوش پر
کیا کوئی دل کا اسے مہماں کرے

زندگانی کے مسائل بڑھ گئے
کوئی ذکرِ کاکلِ پیماں کرے

بھیگے موسم میں لکھے غزلیں رضا
اور اُس کی یاد کو عنواں کرے

Related posts

Leave a Comment