رضا اللہ حیدر ۔۔۔ سوادِ گل میں ہے خوشبو براجمان ابھی

سوادِ گل میں ہے خوشبو براجمان ابھی
نہ باغ بیچنے کی باغبان ٹھان ابھی

ہمیں ٹھہرنا نہیں ہے گلاب سایوں میں
ہماری راہ میں باقی ہیں امتحان ابھی

کہاں وفائوں میں سُرخی لہو کی شامل ہے
اسی لیے تو ادھوری ہے داستان ابھی

ہوائے تند مسلسل ہمارے در پے ہے
ہمارے پائوں کے نیچے رہے چٹان ابھی

رضا یہ زینت و تزئیں چمن کی ہم سے ہے
جو چاہیں ہم تو پڑے پائوں باغبان ابھی

Related posts

Leave a Comment