رضا اللہ حیدر ۔۔۔ شاید حریمِ قدس کی کوئے جناں کی ہے

شاید حریمِ قدس کی کوئے جناں کی ہے چڑھتی ہے آسمان کو مٹی کہاں کی ہے ٹھنڈی ہوائیں درد کی سوغات لے اُڑیں تاثیر اس قدر مرے اشکِ رواں کی ہے اس کی محبتوں میں ہوئے معرکے عجب گویا کہانی جنگ کی تیر و سناں کی ہے میں حلقۂ غبارِ سفر کا مکیں ہوا رہزن کو کیوں تلاش مرے آشیاں کی ہے پھرتے ہیں لے کے آنکھ میں خوابوں کی کھیتیاں حالت عجیب شہر میں پیر و جواں کی ہے آخر رضا ہوا ہی کرے گی ہوا اُسے احباب کو…

Read More

رضا اللہ حیدر ۔۔۔ تجھ سے تجھی کو مانگنا اک کام ہی تو ہے

تجھ سے تجھی کو مانگنا اک کام ہی تو ہے یہ درد میرے عشق کا انعام ہی تو ہے آکر شب ِ سیاہ اجالوں میں ڈھال دو اشکوں کا ہر چراغ لبِ بام ہی تو ہے جانا ہے ہم نے سرحدِ افلاک سے پرے یہ راہ، مُشتِ خاک کو اک گام ہی تو ہے خونِ جگر ہی پیتے ہیں زنجیر پا پڑے بادہ کشوں کا شہر میں اکرام ہی تو ہے بجھتی نہیں ہے پیاس مری روح کی وہاں لب پر خطیبِ شہر کے دشنام ہی تو ہے کرنوں کا…

Read More

رضا اللہ حیدر ۔۔۔ حرفِ نو آج جو دیوار پہ لکھا گیا ہے

حرفِ نو آج جو دیوار پہ لکھا گیا ہے وقت کی کاٹتی تلوار پہ لکھا گیا ہے روک پائے گا نہ یلغار اجالوں کی کوئی شاخِ مہتاب سے کہسار پہ لکھا گیا ہے سات دروازوں کے اندر جو کیا تھا چھپ کر جرم، پیشانیٔ اخبار پہ لکھا گیا ہے ایک الزام ہے جو خلقِ خدا کے لب سے پھر قبائے شہِ زردار پہ لکھا گیا ہے میں بھی اُس شوخ کو تشبیب میں لے آؤں گا جانتا ہوں کہ بہت پیار پہ لکھا گیا ہے یہ جو دفتر ہے رضا…

Read More

رضا اللہ حیدر ۔۔۔ دل کی بستی میں وہ مہماں نہ ہوا تھا پہلے

دل کی بستی میں وہ مہماں نہ ہوا تھا پہلے اس طرح درد کا درماں نہ ہوا تھا پہلے اشک پلکوں پہ ستاروں کی طرح اٹکے ہیں شہر میں ایسے چراغاں نہ ہوا تھا پہلے درد کی طرح تہِ آب رہا درد مگر جس طرح آج ہے عریاں ، نہ ہوا تھا پہلے اس کو آنکھوں میں بسے خواب کی تعبیر ملی اس کا چہرہ یوں گلستاں نہ ہوا تھا پہلے پھر مری فکر کی دہلیز پہ موتی چمکے یہ اُفق رنگِ شبستاں نہ ہوا تھا پہلے

Read More

رضا اللہ حیدر ۔۔۔ سوادِ گل میں ہے خوشبو براجمان ابھی

سوادِ گل میں ہے خوشبو براجمان ابھی نہ باغ بیچنے کی باغبان ٹھان ابھی ہمیں ٹھہرنا نہیں ہے گلاب سایوں میں ہماری راہ میں باقی ہیں امتحان ابھی کہاں وفائوں میں سُرخی لہو کی شامل ہے اسی لیے تو ادھوری ہے داستان ابھی ہوائے تند مسلسل ہمارے در پے ہے ہمارے پائوں کے نیچے رہے چٹان ابھی رضا یہ زینت و تزئیں چمن کی ہم سے ہے جو چاہیں ہم تو پڑے پائوں باغبان ابھی

Read More

رضا اللہ حیدر ۔۔۔ درد کا کوئی نہ یاں درماں کرے

درد کا کوئی نہ یاں درماں کرے جو بھی آئے زخم کو عریاں کرے زندگی بھی تو وفا کرتی نہیں موت ہی سے یوں گلہ انساں کرے میرے گلشن میں اُداسی چھا گئی کوئی آئے بلبلیں رقصاں کرے راستہ تو نے چنا ہے پُرخطر تیری تکلیفیں خدا آساں کرے وہ تو بیٹھا ہے ہوا کے دوش پر کیا کوئی دل کا اسے مہماں کرے زندگانی کے مسائل بڑھ گئے کوئی ذکرِ کاکلِ پیماں کرے بھیگے موسم میں لکھے غزلیں رضا اور اُس کی یاد کو عنواں کرے

Read More