رضا اللہ حیدر ۔۔۔ تجھ سے تجھی کو مانگنا اک کام ہی تو ہے

تجھ سے تجھی کو مانگنا اک کام ہی تو ہے
یہ درد میرے عشق کا انعام ہی تو ہے

آکر شب ِ سیاہ اجالوں میں ڈھال دو
اشکوں کا ہر چراغ لبِ بام ہی تو ہے

جانا ہے ہم نے سرحدِ افلاک سے پرے
یہ راہ، مُشتِ خاک کو اک گام ہی تو ہے

خونِ جگر ہی پیتے ہیں زنجیر پا پڑے
بادہ کشوں کا شہر میں اکرام ہی تو ہے

بجھتی نہیں ہے پیاس مری روح کی وہاں
لب پر خطیبِ شہر کے دشنام ہی تو ہے

کرنوں کا رقص ہو گا طلوعِ سحر کے بعد
ڈھل جائے گی غموں کی رضا شام ہی تو ہے

Related posts

Leave a Comment