ازور شیرازی ۔۔۔ اس لیے شہر کا ہر شخص نہیں ہے تیرا

اس لیے شہر کا ہر شخص نہیں ہے تیرا تخت میرا ہے مگر تخت نشیں ہے تیرا جب ترے پاؤں میں صحرا کی مسافت بھی ہے کیوں سفر سے پلٹ آنے پہ یقیں ہے تیرا ہم بھی رکھتے ہیں کئی چاند سے چہرے لیکن سب کے یاروں سے مگر یار حسیں ہے تیرا کیا ہوا ، اُس نے اگر چھوڑ دیا ہے تجھ کو ایک ہی شخص تو محبوب نہیں ہے تیرا تجھ میں یہ کفر کے انداز کہاں سے آئے ورنہ گھر بار تو مسجد سے قریں ہے تیرا…

Read More

ازور شیرازی ۔۔۔ زنداں سے نکل جانے کی تدبیر نکالے

زنداں سے نکل جانے کی تدبیر نکالے ہر روز کوئی حلقۂ زنجیر نکالے کوئی بھی جری مدِمقابل نہیں آیا میں شہر میں پھرتا رہا شمشیر نکالے ایسا نہ ہو گدی سے زباں کھینچ لی جائے اب منہ سے کوئی شخص نہ تقریر نکالے جب بھی مجھے پردیس نے لُوٹا تو دعا کی گھر سے نہ کسی شخص کو تقدیر نکالے گر قیدِ مسلسل کی کہانی نہیں سنتا آنچل سے ذرا زلفِ گرہ گیر نکالے اِک عمر کی کوشش سے بھی ممکن نہیں نکلے جو راہِ سخن میر تقی میر نکالے

Read More

ازور شیرازی ۔۔۔ ہم پھر بھی چاہتے ہیں کہ تیری زباں کھلے

ہم پھر بھی چاہتے ہیں کہ تیری زباں کھلے گرچہ پڑے ہیں شہد کے سب مرتباں کھلے اے دوست! یہ عوام نہیں ہیں ہجوم ہیں کچھ سوچ کر دیا کرو اتنے بیاں کھلے تجھ کو بتا رہا ہوں شراکت سے پیشتر ہوتے ہیں کاروبار میں سود و زیاں کھلے اب بھی زمیں پہ چلتا ہوں آہستگی کے ساتھ گرچہ زمانہ بیت گیا بیڑیاں کھلے دو مرلے کے فلیٹ میں کل خاندان ہے میں کیسے مان لوں ترے کون و مکاں کھلے تاعمر تو گھرا رہے یاروں کے درمیاں تجھ پر…

Read More