ازور شیرازی ۔۔۔ اس لیے شہر کا ہر شخص نہیں ہے تیرا

اس لیے شہر کا ہر شخص نہیں ہے تیرا
تخت میرا ہے مگر تخت نشیں ہے تیرا

جب ترے پاؤں میں صحرا کی مسافت بھی ہے
کیوں سفر سے پلٹ آنے پہ یقیں ہے تیرا

ہم بھی رکھتے ہیں کئی چاند سے چہرے لیکن
سب کے یاروں سے مگر یار حسیں ہے تیرا

کیا ہوا ، اُس نے اگر چھوڑ دیا ہے تجھ کو
ایک ہی شخص تو محبوب نہیں ہے تیرا

تجھ میں یہ کفر کے انداز کہاں سے آئے
ورنہ گھر بار تو مسجد سے قریں ہے تیرا

میں نے خود غیر کے پہلو میں اُسے دیکھا ہے
تْو سمجھتا ہے کہ وہ زہرہ جبیں ہے تیرا

Related posts

Leave a Comment