ازور شیرازی ۔۔۔ زنداں سے نکل جانے کی تدبیر نکالے

زنداں سے نکل جانے کی تدبیر نکالے
ہر روز کوئی حلقۂ زنجیر نکالے

کوئی بھی جری مدِمقابل نہیں آیا
میں شہر میں پھرتا رہا شمشیر نکالے

ایسا نہ ہو گدی سے زباں کھینچ لی جائے
اب منہ سے کوئی شخص نہ تقریر نکالے

جب بھی مجھے پردیس نے لُوٹا تو دعا کی
گھر سے نہ کسی شخص کو تقدیر نکالے

گر قیدِ مسلسل کی کہانی نہیں سنتا
آنچل سے ذرا زلفِ گرہ گیر نکالے

اِک عمر کی کوشش سے بھی ممکن نہیں نکلے
جو راہِ سخن میر تقی میر نکالے

Related posts

Leave a Comment