اشرف کمال ۔۔۔ جب تجھے آنکھ میں تصویر کیا کرتا تھا

جب تجھے آنکھ میں تصویر کیا کرتا تھا
شوقِ جذبات کی تشہیر کیا کرتا تھا

اک تعلق تھا محبت کا تری یاد کے ساتھ
جو مرے پاؤں کو زنجیر کیا کرتا تھا

جب بھی آتا تھا مرا ذکر کبھی باتوں میں
اپنے ہر لفظ کو وہ تیر کیا کرتا تھا

لوگ پڑھتے تھے تو بے ساختہ رو پڑتے تھے
غم کو اپنے میں یوںتحریر کیا کرتا تھا

اک محل تھا جہاں شہزادی کوئی قید میں تھی
میں اسے خواب میں تسخیر کیا کرتا تھا

رنگ ورعنائی تخیل میں اتر آتے تھے
میں تجھے آنکھ میں تنویر کیا کرتا تھا

میں نے سیکھا تھا ہنر رات کو دن کرنے کا
آنکھ بھر خواب کی تعمیر کیا کرتا تھا
اٹھنے دیتا ہی نہ تھا دل ترے پہلو سے مجھے
لمحہ بھر شوق بھی تاخیر کیا کرتا تھا

حسنِ یوسف کے لیے سوت کی اٹی کی طرح
میں تجھے پانے کی تدبیر کیا کرتا تھا

Related posts

Leave a Comment