رفیق راز ۔۔۔ اعجاز گل : ایک تاثر

اعجاز گل : ایک تاثر

اعجاز گل صاحب کا شعری مجموعہ ’’گمان آباد‘‘ ایک جہانِ دیگر کا نام ہے اور میں ابھی ابھی اس جہانِ دیگر کی سیر پیدل ہی کر آیا ہوں۔پیدل اس لیے کہ پی۔ڈی۔ایف پر کتاب کا مطالعہ کرنا دنیا کی سیر پیدل کرنے کے مترادف ہی ہے۔ نہایت تھکا دینے والا سفر تھا لیکن شکر ہے میں نے شوق سے طے کیا۔ اس جہان دیگر میں اعجاز گل صاحب نے حیرت و استعجاب اور گمان و یقین کے ایسے ایسے دریا بہائے ہیں کہ ہر طرف شادابی ہی شادابی نظر آرہی ہے۔ویسے تو ہر شخص اپنی اپنی دنیا بناتا ہے جو اس کے من موافق بھی ہوتی ہے اور ہر لحاظ سے مکمل بھی، اور اسی میں ذہنی طور اپنی ساری عمرِعزیز گزارتا ہے لیکن شاعر ایک ایسی دنیا بناتا ہے جو اسے ہر پل ہر لمحہ ادھوری اور نامکمل لگتی ہے اور وہ تمام عمر اپنے تخیل سے اس کی تکمیل کرتا رہتا ہے، نتیجہ یہ کہ اس سے کبھی باہر آ ہی نہیں پاتا یا وہ اس سے باہر آناہی نہیں چاہتا ،کیوں کہ یہاں دنیا اس کی مرضی کے مطابق چلتی ہے۔ یوں وہ اپنی تمام عمر اس خیالی دنیا میں رہ کر ربِ کائنات کی حقیقی کائنات سے دراصل فرار حاصل کرتا ہے۔اعجاز گل صاحب نے بھی ایک ایسی دنیا خلق کی ہے جس میں وہ اپنے تخیل کے رنگ بھرتے رہتے ہیں اور اسے بناتے بگاڑتے رہتے ہیں ۔۔لیکن ایک بات جو مجھے حیرت ہی میں نہیں ڈالتی بلکہ چونکا بھی دیتی ہے وہ یہ کہ وہ اس جہانِ دیگر میں مستقل قیام پزیر نہیں ہیں۔ وہ کبھی کبھی اس سے باہر آکر خالقِ کائنات کی بنائی ہوئی حقیقی کائنات میں بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں، اور انھی لمحات میں ان کی شاعری کا جو معتدد بہ حصہ وجود میں آیا ہے، وہ کافی متاثر کن ہے۔ یا یوں سمجھیے کہ وہ شاعری مجھے زیادہ پسند آئی۔اعجاز صاحب بہ یک وقت دو دنیائوں کے مکین ہیں، ایک وہ جو ان کے تخیل کی مرہونِ منت ہے اور دوسری وہ جو ربِ کائنات نے بنائی ہے۔ ایک دنیا گل صاحب کے من موافق ہے تو دوسری دنیا جبراً ان پر مسلط کی گئی ہے۔ دونوں دنیائوں میں زیست کرنے سے جو شاعری وجود میں آئی ہے وہ سب اعلیٰ پایہ کی ہے۔ لیکن مجھے اعجاز گل صاحب کی وہ شاعری زیادہ پسند آئی جو اس کائناتِ حقیقی میں زیست کرنے سے اور اس سے برسرِپیکار ہونے سے وجود میں آئی ہے۔ اعجاز گل صاحب جہاں جہاں کائناتِ حقیقی سے ذہنی اور وجدانی دونوں سطحوں پر دست و گریباں نظر آتے ہیں ، وہاں وہاں بہت ہی اعلیٰ پایہ کے اشعار نے جنم لیا ہے۔یہ محاربہ ذات اور کائنات یعنی حقیقی کائنات کے درمیان ہے۔ ذات اور اس محاربے میں گل صاحب بالکل بے سرو ساماں نہیں ، ان کے ترکش میں گماں ،یقیں اور سوالوں کے لاتعداد تیر ہیں اور ان کے تیر چلانے کی ادا بھی نرالی ہے۔ یہی اُن کی شاعری کا بنیادی اسلوب بھی ہے جو ان کا اپنا ہے۔ اب میں چند اشعار آپ سے شیئر کرنا چاہتاہوں ۔یہ اشعار اور ایسے ہی کئی لاتعداد اشعار مجھے پسند ہیں:

نہیں کھلتا کہ آخر یہ طلسماتی تماشا سا
زمیں کے اس طرف، اس آسماں کے اس طرف کیا ہے

ہے ارتکازِ ذات میں وقفہ ذرا سی دیر
ٹوٹا نہیں ہے رابطہ لو سے چراغ کا

مقید ہوں کہ کھینچی ہے ہوا نے چار دیواری
نہ میری سانس رکتی ہے نہ کوئی در نکلتا ہے

کسی سے حل نہ ہوا مسئلہ یہ لا والا
تمام مشقِ جواب و سوال ہو گئی ہے

ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو

خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ

نہاں تھا گوہرِ مقصود کشف کے اندر
یہ مجھ پہ میرے تغافل نے انکشاف کیا

اعجاز گل بلاشبہ اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ اُن کا ایک ایک مصرعہ پُرمغز، تہ دار اور بلا کی شعریت میں گندھا ہواہے۔ لفظ کسی کی میراث  نہیں ہوتےلیکن اعجاز گل کی مخصوص لفظیات سے ایسا لگتا ہے، اُس کی ڈکشن اُس کی ذاتی ہے۔ایک متین، باوقار اور دل گداز لہجے میں کلام کرتا ہوا اعجاز گل محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ فلاسفر بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment