افتخار شاہد ۔۔۔ یہ محبت کوئی بلا تو نہیں

یہ محبت کوئی بلا تو نہیں
مجھ کو یاروں کی بددعا تو نہیں

اتنا اجلا لباس پہنا ہے
وہ کہیں ہاتھ آگیا تو نہیں

ایک دن اس نے یہ کہا مجھ سے
رہگزر ہے یہ راستہ تو نہیں

حسنِ ترتیب سے گماں گزرا
آپ کا ان سے رابطہ تو نہیں

یوں تو دریا تھا اپنے جوبن پر
کشتی والوں سے جا ملا تو نہیں

جس دریچے کو بیل جا پہنچی
اس دریچے میں تُو کھڑا تو نہیں

آنکھ میں خون کیسے اترا ہے
تو کہیں خود سے لڑ پڑا تو نہیں

تُو مری اولیں محبت ہے
تُو مری آخری دعا تو نہیں

یونہی موسم کاحال پوچھا ہے
یہ مرا اصل مدعا تو نہیں

چارہ گر ہو کمال کے شاہد
آپ لیکن میرے خدا تو نہیں

Related posts

Leave a Comment