آفتاب خان ۔۔۔ دو غزلیں

اپنی ضرورتوں سے پریشان بھی نہیں
کہنے کو زندگی مری آسان بھی نہیں

دیوانہ بن کے شہر میں کیوں گھومتا پھروں
ایسا ابھی میں چاک گریبان بھی نہیں

کردار قتل کرکے کہانی لپیٹیے
اب اس زمیں پہ زیست کے امکان بھی نہیں

دکھ سکھ میں سب شریک تھے اِک وہ بھی دور تھا
کب صحن وہ رہے ہیں ، وہ دالان بھی نہیں

جیسا تھا اُس کا ظرف وہ اُس نے دکھا دیا
مَیں اُس کی بے وفائی پہ حیران بھی نہیں

کیوں کر میں تیرے دستِ حنائی کو تھام لوں
جب تجھ کو میرے قُرب کا ارمان بھی نہیں

کچھ سوچ کر ہی راہِ محبت میں رکھ قدم
مشکل نہیں ہے گر ، تو یہ آسان بھی ہیں

حق سچ کے تیرے ہاتھ میں پتوار ہوں اگر
لے چل سفینہ ، راہ میں طوفان بھی نہیں

اس جلوتِ حیات میں روشن ہے آفتاب
ورنہ چراغِ شام کی پہچان بھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیبِ پوشاک ہونا پڑتا ہے
ورنہ ناپاک ہونا پڑتا ہے

آگ پھونکوں سے جل نہیں سکتی
خس و خاشاک ہونا پڑتا ہے

لفظ لکھ کر مٹانے پڑتے ہیں
شعر میں تاک ہونا پڑتا ہے

پھول یک دم کھلا نہیں کرتا
خاک میں خاک ہونا پڑتا ہے

جب ہو آنکھوں میں ریت صحرا کی
چشمِ نم ناک ہونا پڑتا ہے

عشق میں سادگی نہیں چلتی
کچھ تو چالاک ہونا پڑتا ہے

حسن چھونے کی آرزو ہو اگر
تھوڑا بے باک ہونا پڑتا ہے

جب درندوں کا شور برپا ہو
تب خطرناک ہونا پڑتا ہے

یوں ہی بنتا ہے آفتاب کہاں
مِثلِ افلاک ہونا پڑتا ہے

Related posts

Leave a Comment