محمد نوید مرزا ۔۔۔ اُسے کوئی سزا سی ہے

اُسے کوئی سزا سی ہے
زمیں صدیوں کی پیاسی ہے

میں باہر سے چمکتا ہوں
مرے اندر اُداسی ہے

نئے انسان کی دنیا
پرانی اک کتھا سی ہے

سفر جاری ہے صدیوں کا
یہ دُنیا تو ذرا سی ہے

مقابل آئنہ رکھنا
محبت خود شناسی ہے

سفر بے سمت کرتے ہو
مسلسل بدحواسی ہے

دکھوں سے چور اک لڑکی
زمانے سے خفا سی ہے

بغاوت کر نہیں سکتی
کسی مندر کی داسی ہے

خزاں آثار منظر ہیں
رُتوں کی بے لباسی ہے

Related posts

Leave a Comment