محمد نوید مرزا ۔۔۔ بات سے بات بنانے کا ہنر آتا ہے

بات سے بات بنانے کا ہنر آتا ہے مجھ کو آواز اُٹھانے کا ہنر آتا ہے میں نے پلکوں سے تراشے ہیں خدوخال ترے مجھ کو تصویر بنانے کا ہنر آتا ہے بات کرتی ہیں درختوں سے نئے لہجے میں شور چڑیوں کو مچانے کا ہنر آتا ہے زندگی جس نے گزاری ہے یہاں کانٹوں پر کیا اُسے پھول کھلانے کا ہنر آتا ہے مسکراتے ہوئے آنکھوں میں نمی رکھتا ہوں رونے والوں کو ہنسانے کا ہنر آتا ہے بستیاں جس نے اُجاڑی ہیں سہولت سے بہت؟ کیا اُسے شہر…

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ جب سے میں ہوں ترے خیال میں گم

جب سے میں ہوں ترے خیال میں گم اک اُجالا ہے خدوخال میں گُم راستے گرد گرد ہیں جب سے ہر مسافر ہے اک وبال میں گم خود بخود رہگزر بناتا ہے ہر پرندہ ہوا کے جال میں گم سن رہا ہوں صدا قلندر کی ہو رہا ہوں کسی دھمال میں گم کون اب اُس کا انتظار کرے کوئی کب تک رہے ملال میں گم ماورا ہے تُو ہر تخیل سے روشنی ہے ترے جمال میں گُم نقش سب کے بنا رہا ہے وہی میں بھی ہوں دست لازوال میں…

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ کار دنیا میں فرشتوں کی طرح ہوتا ہے

کار دنیا میں فرشتوں کی طرح ہوتا ہے ’’آدمی عشق میں بچوں کی طرح ہوتا ہے‘‘ اُس کے منزل کی طرف خود ہی قدم اُٹھتے ہیں جب کوئی شہر کے رستوں کی طرح ہوتا ہے جس کے لہجے سے محبت کی مہک آتی ہو گفتگو میں وہ گلابوں کی طرح ہو تا ہے کوئی آسیب مسلّط ہے گلی کوچوں میں دن نکلتا ہے تو راتوں کی طرح ہوتا ہے توڑ کر بھی وہ جڑا رہتا ہے اندر اپنے اب کہاں کوئی کھلونوں کی طرح ہوتا ہے جُھوم اُٹھتا ہے ذرا…

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ اُسے کوئی سزا سی ہے

اُسے کوئی سزا سی ہے زمیں صدیوں کی پیاسی ہے میں باہر سے چمکتا ہوں مرے اندر اُداسی ہے نئے انسان کی دنیا پرانی اک کتھا سی ہے سفر جاری ہے صدیوں کا یہ دُنیا تو ذرا سی ہے مقابل آئنہ رکھنا محبت خود شناسی ہے سفر بے سمت کرتے ہو مسلسل بدحواسی ہے دکھوں سے چور اک لڑکی زمانے سے خفا سی ہے بغاوت کر نہیں سکتی کسی مندر کی داسی ہے خزاں آثار منظر ہیں رُتوں کی بے لباسی ہے

Read More

محمد نوید مرزا ۔۔۔ یوم دفاع پاکستان

یومِ دفاعِ ملک منانے کے واسطے پرچم کو رفعتوں پہ اُڑانے کے واسطے پھولوں میں اتحاد کی خوشبو ہے لازمی گلشن کی آبرو کو بچانے کے واسطے برسایئے خلوص اخوت کے کھیت پر پودے ترقیوں کے اُگانے کے واسطے روحیں یہ کہہ رہی ہیں شہیدانِ قوم کی ہو جائو ایک ملک بچانے کے واسطے مٹی میں اپنے خون کی بوندیں اُتار کر گھر سے نکل پڑے ہیں خزانے کے واسطے

Read More