محمد نوید مرزا ۔۔۔ جب سے میں ہوں ترے خیال میں گم

جب سے میں ہوں ترے خیال میں گم
اک اُجالا ہے خدوخال میں گُم

راستے گرد گرد ہیں جب سے
ہر مسافر ہے اک وبال میں گم

خود بخود رہگزر بناتا ہے
ہر پرندہ ہوا کے جال میں گم

سن رہا ہوں صدا قلندر کی
ہو رہا ہوں کسی دھمال میں گم

کون اب اُس کا انتظار کرے
کوئی کب تک رہے ملال میں گم

ماورا ہے تُو ہر تخیل سے
روشنی ہے ترے جمال میں گُم

نقش سب کے بنا رہا ہے وہی
میں بھی ہوں دست لازوال میں گم

جب گزشتہ تلاش کرتا ہوں
ہونے لگتا ہوں اپنے حال میں گم

Related posts

Leave a Comment