جیلانی کامران __ تعارف و کلام ۔۔۔ محمد یوسف وحید

جیلانی کامران …تعارف و کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر جیلانی کامران ( 24 اگست 1926ء ۔۔ 22 فروری 2003ء) اُردو کے ممتاز شاعر، محقق، نقاد اور انگریزی کے پروفیسر ایمریطس تھے۔ جیلانی کامران کو انگریزی اور اُردو ادب پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔جیلانی کامران کی علمی اور ثقافتی روایات سے عقیدت قابلِ دید تھی۔
جیلانی کامران 24 اگست 1926ء کو پونچھ، ریاست جموں و کشمیر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے اور 1957ء میں ایڈنبرگ یونیورسٹی سے ایم اے (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔
جیلانی کامران 1957ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بطور انگریزی استاد وابستہ ہوئے۔ اسی کالج میں 1971ء سے 1973ء تک وائس پرنسپل مقرر ہوئے۔1973ء سے 1975ء تک گورنمنٹ کالج( اصغر مال) راولپنڈی میں پرنسپل کے عہدے پر فائض رہے۔ 1979ء سے 1989ء تک ایف سی کالج لاہور میں شعبہ انگریزی کے صدر اور پھر 1999ء میں پروفیسر ایمریطس مقرر ہوئے۔
پروفیسرجیلانی کامران قائداعظم اور آدم جی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔جیلانی کامران نے پاکستان ٹیلی ویژن کے متعدد ادبی پروگرامز میں شرکت کی اور مختلف اخبارات  میں تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔پروفیسر جیلانی کامران اکادمی ادبیا ت اسلام آباد کے تاحیات رکن اور رائٹرز ویلفیئر بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی رہے۔
پروفیسر جیلانی کامران کی تحریریں اُردو نثر اور نظم میں ایک خاص فلسفے کی نمائندگی کرتی ہیں جسے انہو ں نے تصوف اور وجودیت کی عمدہ تراکیب سے ترتیب دیا ہے ۔ پروفیسر جیلانی کامران کی شاعری کی پانچ کتابیں، اردو میں دس نثری اور پانچ انگریزی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
پروفیسر جیلانی کامران کو دو اُردو کتابوں’’ تنقید کا نیا پس منظر اور قائداعظم اور آزادی کی تحریک‘‘ اور خواجہ فرید کی کافیوں کے انگریزی ترجمے پر انعامات بھی مل چکے ہیں ۔
1978 ء میں جیلانی کامران نے امریکہ کا دورہ کیا اور پاکستان اور اس کی ثقافت پر لیکچر دیا۔ ان کا جدید کام سقراط سے لے کر موجودہ وقت تک مغرب میں ادبی تنقید کے ارتقاء پر دو جلدوں کی کتاب جو سن 2000 ء میں شائع ہوئی۔ مختلف فلسفیانہ تصورات اور ادبی نظریات کے تناظر میں تلاش کی گئی تنقیدی روایات کی پرورش میں مدد کی۔ یہ اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی منفرد کتاب تھی ۔
پروفیسر کامران نے 35 کتابیں تصنیف کیں ۔جیلانی کامران کے شعری مجموعوں میں’’ استانزے، نقش کف پا، چھوٹی بڑی نظمیں، دستاویز اور جیلانی کامران کی نظمیں اور نثری کتب میں تنقید کا نیا پس منظر، نئی نظم کے تقاضے، غالب کی تنقیدی شخصیت، نظریہ پاکستان کا ادبی و فکری مطالعہ، اقبال اور ہمارا عہد، لاہورکی گواہی، قائد اعظم اور آزادی کی تحریک، ہمارا ادبی و فکری سفر، امیر خسرو کا صوفیانہ مسلک اور ادب کے مخفی اشارے،مغرب کے تنقیدی نظریے، انگریزی زبان و ادب کی تدریس میں قومی زبان کا کردار، قومیت کی تشکیل اور اُردو زبان اور زندہ رہنما قائد اعظم‘‘شامل ہیں۔
جیلانی کامران کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے 1986ء میں تمغہ ٔ امتیاز اور2002ء میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی کا اعزاز عطا کیا۔
جیلانی کامران 22 فروری، 2003ء کو لاہور، پاکستان میں 77 سال کی عمر میں ہفتے کی صبح برین ہیمرج کے باعث وفات پاگئے۔ وہ اقبال ٹاؤن لاہور میں نشتر بلاک کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔پروفیسر جیلانی کامران نے پسماندگان میں اہلیہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔
جیلانی کامران کی چند نظمیں بطور نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں :

قسمت کا پڑھنے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے
عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے
کون خفا ہے
راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ
آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ
گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ
رستہ کیا ہے منزل کیا ہے
میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے
ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے
میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان
عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان
کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان
ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے
شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے
جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے
چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس
آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس
خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس
دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے
گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے
فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے
(مجلہ ’’راوی‘‘، گورنمنٹ کالج، لاہور، مئی 1973ء)
٭
اے لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے درختوں کی ٹہنیوں پر بہار اترے
تری گزر گاہیں نیک راہوں کی منزلیں ہوں
مرا زمانہ نئے نئے موسموں کی خوشبو
ترے شب و روز کی مہک ہو
زمین پر جب بھی رات پھیلے
کرن جو ظلمت کو روشنی دے تری کرن ہو
پرندے اڑتے ہوئے پرندے
ہزار سمتوں سے تیرے باغوں میں چہچہائیں
وہ رات جس کی سحر نہیں ہے
وہ تیرے شہروں سے تیرے قصبوں سے دور گزرے
وہ ہاتھ جو عظمتوں کے ہجے مٹا رہا ہے
وہ ہاتھ لوح و قلم کے شجرے سے ٹوٹ جائے
کلس پہ لفظوں کے پھول برسیں
تری فصیلوں کے برج دنیا میں جگمگائیں
اکیلے پن کی سزا میں دن کاٹتے ہزاروں
تری زیارت گہوں کی بخشش سے تازہ دم ہوں
ترے مقدر کی بادشاہت زمیں پہ نکھرے
نئے زمانے کی ابتدا تیرے نام سے ہو
خوشی کے چہرے پہ وصل کا ابر تیر جائے
تمام دنیا میں تذکرے تیرے پھیل جائیں
(مجلہ ’’فنون‘‘، لاہور، دسمبر 1973ء)
٭
نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے ثبات کی دنیا موسموں میں اتری ہے
پھول بن کے آئی ہے
گلشنوں میں اتری ہے
آنسوؤں میں اتری ہے
دل میں کچھ برس جی کر آنگنوں میں اتری ہے
چل دیئے خطا بن کر
عشق کی حکایت کے لوگ بے وفا بن کر
جسم و جاں کے پردے میں قیس کی قبا بن کر
راستے کی مٹی پر عکس ہیں دعاؤں کے
کچھ قدم ہیں غیروں کے کچھ ہیں آشناؤں کے
بارہا گنے ہم نے قافلے جفاؤں کے
عکس بے گناہ ہوں گے
نام بارگاہوں کے کس قلم نے لکھے ہیں مشورے ہواؤں کے
( پاکستانی ادب ، ڈاکٹر رشید امجد ، ناشر: اکادمی ادبیات اسلام آباد ،2009،ص: 132)
٭
نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آؤ
شبنم کے پانی میں جھانکیں
ہواؤں کے اڑتے ہوئے نرم جھونکوں سے کھیلیں
فضاؤں میں بکھرے ہوئے خواب ڈھونڈیں
جو بچپن میں ہم سے
زمانے نے چھینے تھے اور اہل دنیا کی چھت پر
بکھیرے تھے!
لوگوں سے، راہوں سے
اپنی کتابوں سے پوچھتا تھا خوابوں کی دنیا کہاں ہے؟
خدا کو پکاریں
جو ہر شے کے پردے میں پردہ ہے دیکھیں
وہ کس کس کی سنتا ہے
خوابوں میں جھانکیں
کہ خوابوں کے اندر وہ بستی ہے جو
خوش نصیبوں کی بستی ہے، اچھے خدا کے ارادوں کی بستی ہے
شاید وہیں
اپنے بچپن کے چھینے گئے خواب رہتے ہیں ہم سے بچھڑ کر
جدائی کے صدموں کو سہتے ہیں
(ماہنامہ اُسلوبِ غزل، مدیر: مشفق خواجہ، شمارہ نمبر 5،6، نومبر 1983ء)
٭
ایک نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی اگر تم زمیں سے گزرو ،زمیں جو ہم سب کی سلطنت ہے
تو جس طرف اک کلی کے مہرے پہ چاندنی اپنا نام خود ہے
وہاں ذرا دیر کے لیے اپنی عمر کی رفت و بود روکو
زمیں کو لمحوں کی بادشاہت میں دیکھنا چاہو
اس طریقہ سے آرزوؤں کے ساتھ دیکھو
کہ جس طرح لوگ اپنے محبوب کے بدن کو
وفات کے وقت دیکھتے ہیں
میں کچھ نہیں اپنے گیت کا اپنی موت کا نامہ بر ہوں
اکثر زمیں کی قسمت میں جتنی زردی ہے وہ ہوں لیکن ہزار قیمت
وہ شے ہوں جس کی عنایتوں سے کبھی ستارے زمیں پہ روشن ہیں
گاہ دل میں بہار اور اس کے خیر مقدم کا ماجرا ہیں
اسی لیے جب کبھی تمہارا گزر ہو اور دن کے نیک سورج
خود اپنے موسم کی بادشاہت ہوں، تو جہاں آنسوؤں کے چشمے
فراق کی اوس ہیں وہاں اپنی چاپ کے ساتھ
میرے سایے کی روشنی میں کبھی مرا ذکر کرنا چاہو
تو خود کو سمجھو میں خود ہوں اور تم مرے ہی موسم کا ابر ہو
ابر جو زمین ہی کی ملکیت کا
غبار بھی بحر بھی ہے رحمت کا ابر بھی ہے
خاموشیاں میرے ساتھ ساری بہار کا معجزہ ہیں
سایہ جہاں گزشتہ کئی دنوں سے تڑپ رہا ہے
وہاں پرانی زمیں نے کلیوں کا تاج پھینکا ہے
اور دنیا کئی مہینوں کے بعد یوں خوش نما ہے جیسے
مرا مقدر تری تمنا سے خوش نما ہے
( نئی نظم کا سفر، خلیل الرحمن عزمی، ناشر: این سی پی یو ایل، نئی دہلی، اشاعت: 2011ء، ص: 213)
٭
پیغام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیغام ہوا لائی ہے نہ جانے کدھر سے
پتوں پہ ابھر آئی ہے تحریر کدھر سے
جو دیکھی ہے لائی ہے وہ تصویر کدھر سے
اک راہ پہ وہ آیا ہے اک لمبے سفر سے
محمل میں وہ بے خواب ہے عالم کی خبر سے
کیا دیکھیے! کیا شکل ہوئی زیر و زبر سے
اک وصل کے موسم میں جہاں جاگ اٹھا ہے
گھر بار زمیں کون و مکاں جاگ اٹھا ہے
خوش ہو کے وہ آزردۂ جاں جاگ اٹھا ہے
کیا وقت کی دہلیز پہ دستک ہے کسی کی؟
سوئی ہوئی دنیا کو سحر ڈھونڈ رہی ہے
اس دور کو اک اچھی خبر ڈھونڈ رہی ہے
(تسطیر، مدیر: نصیر احمد ناصر، ناشر: شادمان مارکیٹ لاہور، شمارہ نمبر 3، اکتوبر 1997ء)
٭
ایک نظم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدم دو قدم چل کے تھک سا گیا ہے
ہمارے مقدر کا انساں۔۔۔
درختوں نے اپنے کئی سارے پژمردہ پتے
ہواؤں کے گھر سے بلائے ہیں
تھکے ہارے رہرو پہ سایہ کریں
اس کی خاطر شکستہ دلوں کا کوئی گیت
سب مل کے گائیں!
زمیں نے کہا ہے، یہ انساں نہیں تھا
وگرنہ یوں رستے میں اپنے ارادے کی ہتک نہ کرتا
یوں اپنے ہی سائے سے بے کار خائف نہ ہوتا
نہ منزل سے گھبرا کے رستے میں گرتا
یوں اپنے گھرانے کی توہین کرتا!
ہمارے مقدر کا انسان منزل بہ منزل
ستاروں سے گزرا ہے، بزم نجوم و قمر جگمگا کر
نشان قدم بن گئی ہے
شکستہ دلوں کا صنم بن گئی ہے
خدائی کے پھیلے ہوئے سلسلے ہیں حرم بن گئی ہے
(مجلہ اُردو انٹرنیشنل، مدیر: اشفاق حسین، نومبر 1982ء)
٭
کون سا باغ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سے باغ میں جا کر ہو آئے
دل کی ہر بات سنا کر ہو آئے!
ایک ساعت کو جہاں دیکھا کئی چہرے تھے
خوش نما بزم میں ہر ایک طرف
پھول کے ادھ کھلتے ہوئے سہرے تھے
اک عجب آب و ہوا بکھری تھی
جس کے چلنے سے سحر اور بہت نکھری تھی
میں نے ہر سمت کہا میں ہوں! یہ تم ہو؟
تو ہے؟
ایسے عالم میں یہ کیا خوشبو ہے؟
اک عجب وقت رہا دید کا دیکھا پایا
محفل راہ میں جس جس کو زمیں پر دیکھا
اس کو اس باغ میں چلتے پایا
(بحوالہ :تسبطیر، مدیر: نصیر احمد ناصر، دسمبر 1997ء)
٭
ننھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ وہ پھول ہے جس پر تتلی ہے
اپنے گھر سے تجھ کو دیکھنے نکلی ہے
پھول سے وہ خوشبو کی مہک بنائے گی
پھر وہ خوش خوش
تجھ سے ملنے آئے گی
ننھے
پھول اس نے تجھ کو دیکھا ہے
تجھ کو دیکھ کے پیار سے میرا نام لکھا ہے
اب وہ تیرے نام کی خوشبو لائی ہے
اس نے سب کو تیری بات بتائی ہے
ننھے دیکھ
یہ کیسی پیاری دنیا ہے
جس میں خوشبو بن کر تجھ کو جینا ہے
ننھے تجھ سے دور
میں جب چھپ جاؤں گا
آتے جاتے تجھ کو دیکھ نہ پاؤں گا
کیا تم تتلی بن کر
ڈھونڈنے نکلو گے
مجھ سے ملنے نکلو گے
( پاکستانی ادب ، ڈاکٹر رشید امجد ، ناشر: اکادمی ادبیات اسلام آباد ،2009ء )
٭
حوالہ جات :
1۔جیلانی کامران، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
2۔روزنامہ ڈان کراچی، 23 فروری 2003ء
3۔ عقیل عباس جعفری: پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 907
4۔وِیکی پیڈیا ( ویب )
٭٭٭

Related posts

Leave a Comment