نسیمِ سحر ۔۔۔ عیاں سے آنکھ ہٹا کر نہاں کو دیکھ لیا

(نذرِ جناب خورشید رضوی)

عیاں سے آنکھ ہٹا کر نہاں کو دیکھ لیا
تو ایک ذرّے میں ہم نے جہاں کو دیکھ لیا

کسی نے جب مِرے قلبِ تپاں کو دیکھ لیا
گماں کرے گا کہ آتش فشاں کو دیکھ لیا

نہیں ہے شوق ہمیں جا کے اُس کو چھُونے کا
ہمیں یہی ہے بہت ، آسماں کو دیکھ لیا!

درونِ ذات جونہی اِک نگاہ کی ہم نے
’’وجودِ سنگِ رہِ درمیاں کو دیکھ لیا‘‘

ظفر(۱) کو دیکھ کے ایسا لگا کہ بارِ دِگر
جنابِ میرؔ سے جادو بیاں کو دیکھ لیا

یہ معجزہ بھی دِکھایا ہے چشمِ بینا نے
کہ ہم نے گُل میں چھُپے گلستاں کو دیکھ لیا

پُکارا مَیں نے اُنھیں جب تو آسمانوں نے
بس اِک نظر سے مِرے خاکداں کو دیکھ لیا

جو ہم نے دیکھا سرِرہگذارِ آیندہ
اِک اَور قافلۂ رفتگاں کو دیکھ لیا

وُہ ایک عُمر رہا تھا مکیں مِرے دِل میں
پھر اُس کی یاد نے خالی مکاں کو دیکھ لیا

ہماری ذات کے پھیلاؤ کا کرشمہ ہے
مکاں میں رہتے ہوئے لامکاں کو دیکھ لیا

شکستگی کے مراحل میں جو ستارہ تھا
مری نظر نے وہیں کہکشاں کو دیکھ لیا

پھر اس کے بعد کہاں کی اڑان، کیسا سفر !
اگر پرندے نے آب ِ رواں کو دیکھ لیا

خیال تھا کہ یہ دستک ہے موسمِ گل کی
مگر کواڑ جو کھولے ، خزاں کو دیکھ لیا

کچھ اور روز و شبِ زندگی ہوئے جو عطا
کچھ اور گردشِ سیّارگاں کو دیکھ لیا

اُسے تو کرنا ہی تھا پورے زور سے حملہ
عُدو نے جب مری ٹوٹی کماں کو دیکھ لیا

وہ جس نے دیکھی نہیں ڈوبتی ہوئی کشتی
ہوا میں اُڑتے ہوئے بادباںکودیکھ لیا

(۱)اس شعر میں ظفرؔ سے مراد ہندوستان کے شاعرظفر مہدی مرحوم ہیں جو جدہ مقیم تھے اورجنہیں ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے بڑی عقیدت تھی)

Related posts

Leave a Comment