محمد نوید مرزا ۔۔۔ بات سے بات بنانے کا ہنر آتا ہے

بات سے بات بنانے کا ہنر آتا ہے
مجھ کو آواز اُٹھانے کا ہنر آتا ہے

میں نے پلکوں سے تراشے ہیں خدوخال ترے
مجھ کو تصویر بنانے کا ہنر آتا ہے

بات کرتی ہیں درختوں سے نئے لہجے میں
شور چڑیوں کو مچانے کا ہنر آتا ہے

زندگی جس نے گزاری ہے یہاں کانٹوں پر
کیا اُسے پھول کھلانے کا ہنر آتا ہے

مسکراتے ہوئے آنکھوں میں نمی رکھتا ہوں
رونے والوں کو ہنسانے کا ہنر آتا ہے

بستیاں جس نے اُجاڑی ہیں سہولت سے بہت؟
کیا اُسے شہر بسانے کا ہنر آتا ہے؟

میرا کردار کہانی میں ضروری ہے نوید
ہر گھڑی مجھ کو نبھانے کا ہنر آتا ہے

Related posts

Leave a Comment