نسیمِ سحر ۔۔۔ 16 دسمبر 1971ء(سقوطِ مشرقی پاکستان) کی یاد میں ایک نظم

جو میرے پیارے دُلارے وطن کا حصہ تھا
جو میرا بازو تھا، میرے بدن کا حصہ تھا
جُدا ہوا ہے تو اُس کا ملال کیوں نہ کروں؟
تباہ کِس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
……………
جُدا ہوا جو مِرے دُشمنوں کی سازش سے
اور اِس کے ساتھ کچھ اپنوں کی بھی نوازش سے
بھلا بیان مَیں یہ سارا حال کیوں نہ کروں؟
تباہ کس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
……………
اُگیں گی نفرتیں ایسا گماں کہاں تھا کبھی
محبتوں کا سمندر رواں دواں تھا کبھی
مَیں اب بھی یاد وہی ماہ و سال کیوں نہ کروں
تباہ کِس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
……………
ہمیں تو مار گیا اُن سیاستوں کا چلن
قدم قدم پہ تھا جِن میں خباثتوں کا چلن
جو دِل دُکھا ہے تو ذکرِ زوال کیوں نہ کروں
تباہ کِس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
……………
ہمارے ماضی کے چہرے پہ جو سیاہی ہے
قدم قدم پہ جو تاریخ کی گواہی ہے
مَیں ظاہر اُس کے سبھی خط و خال کیوں نہ کروں؟
تباہ کِس نے کیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
جو اُس زمیں پہ ہیں محصور اِک زمانے سے٭
وطن سے جو ہیں بہت دُور اِک زمانے سے
وُہ زخم زخم ہیں، مَیں اندمال کیوں نہ کروں
تباہ کس نے کِیا ، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
……………
کھُلے ہیں ماضی کے جتنے ورق ،نظر میں رکھوں
چھُپے ہوئے ہیں جو اُن  میں سبق، نظر میں رکھوں
وطن کو اپنے مَیں یوں بے مثال کیوں نہ کروں
تباہ کس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
……………
ہمیں زوال کے موسم کو تو بدلنا ہے !
اگر زمانہ نہیں، ہم کو تو بدلنا ہے !
اِسی زوال سے کسبِ کمال کیوں نہ کروں
تباہ کس نے کِیا، یہ سوال کیوں نہ کروں؟
……………
نئے سِرے سے یہ پرچم بلند کرنا ہے
ہزیمتوں کا جو رستہ ہے، بند کرنا ہے
مَیں آن اپنے وطن کی بحال کیوں نہ کروں
منوّر اپنے بھی یوں خطّ و خال کیوں نہ کروں
……………
جو میرے پیارے دُلارے وطن کا حصہ تھا
جو میرا بازو تھا، میرے بدن کا حصہ تھا
اُسے نہ یاد کروں اور ملال کیوں نہ کروں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭ ان پاکستانیوں کا ذکر ہے جو آج بھی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور ہو کر انتہائی مشکلات میں زندگی گزار رہے ہیں-

Related posts

Leave a Comment